بلقیس ایدھی 

یہ2003 ء کا ذکر ہے۔ خلیج میں جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ عراق پر حملہ ہونے کے خدشات روز بروز بڑھ رہے تھے۔ بغداد سے جو لوگ نکل سکتے تھے نکل رہے تھے اور شام کی طرف آ رہے تھے۔ سرحد کے قریب عراقی علاقے میں مہاجرین کا خیموں میں بسنے کا سلسلہ جاری تھا۔ زیادہ تر غیر ملکی شام سے نکل گئے تھے اور کئی ممالک کے سفارت کار دمشق چھوڑ چکے تھے۔ باہر سے آئے والی پروازیں کم ہوچکی تھیں اور آمدورفت کا سلسلہ کمزور پڑ گیا تھا۔ ہماری تعیناتی ان دنوں پاکستانی سفارتخانے دمشق میں ہوئی تھی۔ ایک دن عبدالستار ایدھی صاحب تشریف لے آئے۔ وہ مشکل میں پھنسے عراق کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں جانے والے راستے مسدود ہوچکے تھے۔ ہم وہاں ہلال احمر کے اہلکاروں سے بھی ملے لیکن کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ تو ایدھی صاحب کسی کو بتائے بغیر عراق کی سرحد پر گئے لیکن آگے جانے کا بندوبست نہیں ہوسکا۔ اسی تگ و دو کے عالم میں ایدھی صاحب نے چند دن دمشق میں قیام کیا۔
 ان کی شریک حیات بلقیس ایدھی بھی ان کے ساتھ تھیں جنہوں نے شوہر کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگی دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کی تھی۔ دوسروں کی مدد اور خدمت کے جذبے سے سرشار ایسے میاں بیوی کی مثال بہت کم ملتی ہے جو ایک دوسرے کا ایسی جانفشانی سے ساتھ دے رہے ہوں۔ وہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اس لیے کہ ان کی زندگی پھولوں کی سیج تو تھی نہیں جس کیلئے کوئی لالچ کرے۔ ویسے ایدھی صاحب ایک غلطی کر چکے تھے اور ان کی رفیقہ حیات کو جب موقع ملتا تو ان پر طنز کے تیر برساتی اور انہیں دوسری شادی پر طعنہ دیتی۔ وہ کہتی دوسری بیوی نے نہ صرف انہیں چھوڑ دیا بلکہ بہت کچھ ساتھ بھی لے گئی۔ ایدھی صاحب شرمندہ ہوتے اور غلطی مان کر معافی مانگ لیتے۔ میاں بیوی کے درمیان طنزو مزاح کا سلسلہ چلتا رہتا۔ ایک دفعہ ایدھی صاحب کی قمیص پھٹ گئی تو انہوں نے ہم سے سوئی دھاگہ مانگا۔
 میری شریک حیات نگہت نے مدد کرنا چاہی لیکن ایدھی صاحب نے اپنی قمیص خود سی لی۔ بعد میں انہوں نے سوئی دھاگہ اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت مانگی تو بلقیس صاحبہ نے ان پہ طنز کیا کہ تمہاری یہ مانگنے کی عادت نہیں جاتیدوران گفتگو جب ایدھی صاحب نے شکایت کی کہ کئی دفعہ لوگ ایدھی ایمبولینس منگوا لیتے ہیں کہ حادثہ ہوا ہے اور جب گاڑی وہاں پہنچتی ہے تو ڈرائیور کو کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں جگہ پہنچا دیں دیر ہوگئی ہے اور کوئی گاڑی دستیاب نہیں، کرایہ دے دینگے۔ ایک موقع پر بلقیس صاحبہ نے کہا کہ ایدھی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ' پچاس سال اس جنگل میں "۔ ا یدھی صاحب نے فرمایا کہ وہ اسے ابھی چھاپنا نہیں چاہتے۔ محترمہ بلقیس بانو ایدھی نرسنگ سنٹر میں ٹریننگ لینے آئی اور یہاں کی ہو رہی۔ رشتہ مانگنے پر اس کی ماں نے پوچھا ' میری بیٹی کھائے گی کہاں سے؟۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس کی بیٹی کو کیا عظمت ملنے والی ہے اور وہ ہزاروں کم نصیب، بے بس اور نادار بچوں، بچیوں، بوڑھوں اور مریضوں کو کھانا کھلائے گی۔عبدالستار ایدھی سے شادی کرکے بلقیس ایدھی مرحومہ نے دکھی نسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ 
وہ پیشے کے لحاظ سے نرس تھیں اور ایدھی صاحب فلاح کے کام کرتے تھے۔ وہ ایک ایمبولینس چلاتے تھے مختلف حادثات میں زخمی اور جان بحق ہونے والوں کوتجہیزوتکفین کیلئے لے جاتے۔ ان کی زندگی میں سب سے پہلا کام یہ تھا۔ اس کے مقابلے میں گھر گرہستی کے امور ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ شادی کے دن بھی انہوں نے چھٹی نہیں کی تھی بلکہ وہ ایک زخمی بچے کو ہسپتال لے گئے تھے۔ شروع میں ایدھی صاحب نے ایک دواخانہ کھولا اور رات کواس کے سامنے سوتے کہ کسی کو دوائیوں کی ضرورت پڑے تو وہ انکی مدد کرے۔ پھر ایک پک اپ خریدی اور اسے ایمبولینس کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ ان کے فلاحی کاموں کا سلسلہ وسیع ہوتا گیا اور ایک وقت آیا کہ ایدھی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن گئی۔ دنیا میں جہاں کوئی مشکل پیش آتی، قدرتی آفات ہوں یا جنگ کی حالت، ایدھی صاحب مدد کیلئے پہنچتے۔ ملک کے اندر ایدھی ہوم بنایا جہاں ہر بے سہارا کو جگہ ملتی۔ جن بچوں کو والدین چھوڑتے ایدھی ہوم ان کا گھر بنتا۔ مجبور والدین کو پناہ ملتی اور بے سہارا مریضوں کو علاج کی سہولتیں ملتیں۔
 بلقیس ایدھی اپنے شوہر کے شانہ بہ شانہ ان نیک کاموں میں مشغول رہیں۔ شوہر کی وفات کے بعد وہ ایدھی فاونڈیشن کی سربراہ کے طور پر خدمت کے اس ادارے کو چلاتی رہیں۔سادگی اور خلوص کے یہ پیکر میاں بیوی نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ کرتے ہوئے خدمت خلق میں شبانہ روز ہمہ تن مصروف رہے اور اس کے علاوہ کسی کام پر توجہ نہیں دی۔چھ سال پہلے کی بات ہے۔ ہماری تعیناتی سعودی عرب ریاض میں ہوئی تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ایک ٹیلی فون آیا۔ فون کرنے والے شخص نے اپنا تعارف فیصل ایدھی کے نام سے کیا۔ اس نے کہا کہ ایدھی فاونڈیشن نے رمضان کے بابرکت مہینے میں مستحقین کیلئے خوراکی اجناس کے پیکٹ بنانے ہیں جس کیلئے مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ نگہت نے فون کیا، رمضان پیکیج کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں اور ایدھی صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کیا جو ان دنوں ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ اس شخص نے کہا کہ ایدھی صاحب بالکل خیریت سے ہیں۔
 نگہت یہ سن کر خوش ہوئی اور پوچھا ان سے بات ہوسکتی ہے۔ اس شخص نے کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں انکی عیادت کیلئے ہسپتال جائیں گے تو ان کی بات کرالیں گے۔ کچھ وقت کے بعد ایک فون آیا کہ ایدھی صاحب سے بات کیجئے۔ بات ہوئی تو نگہت نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تو ایدھی صاحب نہیں ہیں۔ ان کا انداز گفتگو ہم جانتے تھے۔ اس نے محترمہ بلقیس ایدھی کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے نام پہ کئی لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں لیکن ہم کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ یہ ان کی سادگی اور اپنے مقصد سے لگن کا عالم تھا۔ ان کی موت سے ایک دنیا یتیم ہوئی۔ دعا ہے کہ ایدھی کا مشن جاری اور ساری رہے اور ایک عالم اس سے مستفید ہوتا رہے۔