آنکھوں میں پانی کے سمندر

میں نے سنا ایک شخص نہایت قریب سے سنائی دینے والی آواز میں کہہ رہا تھا ”خوش قسمت  عورت“ میں بڑی حیران ہوئی‘ میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھ لیا تھا جو جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والا تھا‘ میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ شایدمجھے کہیں چہرے وغیرہ سے دیکھ کر میری خوش قسمتی کا اندازہ لگا رہا ہے میں نے اپنا بلڈ پریشر سکرین پر دیکھ کر ہاتھ اس آلے سے نکال لیا تھا اور اس آدمی کے قریب پڑی ہوئی ایک کرسی پر ہی بیٹھ گئی میرا بیٹا بھی قریب ہی بیٹھ گیا‘ میرا دل چاہا کہ میں اس بوڑھے سے اپنی خوش قسمتی کے سبب کچھ پوچھوں‘ کیونکہ زندگی میں پہننے والے غم اور دکھوں سے مجھے تو اپنی خوش قسمتی کہیں سے نظر نہیں آرہی تھی‘ لیکن یہاں تو حالات ہی مختلف ہوگئے جیسے اک برسات تھی جو برسنے کیلئے بے قرار تھی‘ ایک طوفان تھا جو برباد کرنے کیلئے بالکل قریب پہنچ چکا تھا یا ایک ایسا نقطہئ اُبال جہاں پانی بالآخر جوش مارنا شروع کر دیتا ہے وہ غمزدہ بوڑھا رو رہا تھا کہنے لگا آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے کو آپ کی مدد کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے اس مغربی ملک میں  آپ دنیا کی خوش قسمت عورت دکھائی دیں ان ممالک میں‘ مغربی تعلیم حاصل کرکے اور مغربیت کے طور طریقے اپنا کر اپنی پرورش کی ہوئی اولاد جس طرح ٹھوکر مار کر بوڑھے والدین کو روتا بلکتا چھوڑ دیتی ہے آپ تو مجھے اس میں منفرد دکھائی دی ہیں‘ میں نے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں میرے بچے یہاں آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی مجھے چاہتے ہیں‘ پیار کرتے ہیں میرا خیال کرتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے میرے ساتھ بیٹھ کر میری باتیں سنتے ہیں۔  وہ شخص ہندوستان کا رہنے والا تھا اپنی کہانی میرے بنا پوچھے سنا رہا تھا میری عمر اس وقت80سال ہے میں 60سال پہلے ہندوستان سے ایک سال کے بچے کا ہاتھ تھامے ہوئے یہاں کینیڈا آیا تھا میری دونوں بیٹیاں یہاں پر ہی پیدا ہوئی تھیں میں زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھا میں نے گھروں کی مرمت کرنے کیلئے ایک کمپنی بنائی جو بجلی کا کام‘ پلمبنگ‘ رنگ وروغن اور ضروری مرمت کروانے کیلئے لوگوں کو اپنی خدمات دیتی تھی‘ میں نے اتنا کمایا کہ ڈالرز میں کھیلنے لگا‘ وہ صحیح کہہ رہا تھا کیونکہ یہاں گھر بنانے سے زیادہ اسکی دیکھ بھال اور مرمت مہنگی ہے۔ گاڑی خریدنے سے زیادہ گاڑی کی مرمت کروانا مہنگا ترین ہے اس نے یقینا اس بزنس میں بہت کمایا تھا میں نے دل میں سوچا‘ میری بیوی بھی بہت پڑھی لکھی نہ تھی اس نے ایک فیکٹری میں نوکری کرلی‘  بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ایک ہی بیٹا ہے اور وہ ڈینٹل سرجن ہے یہاں مغرب میں ڈینٹل سرجن ہونا  ڈالرز کی مشین کہلاتا ہے۔صرف دانت نکلوانے کے 200 سے400 ڈالرز تک لیتے ہی باقی علاج تو اتنا مہنگا ہے کہ ساری عمر اسکی ادائیگی میں گزر جاتا ہے‘ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی‘ دونوں بیٹیوں نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی میں نے جو گھر سستا خریدا تھا جہاں میری یہ تینوں اولادیں کھیلیں کودیں پلی بڑھیں وہ اس وقت ملین ڈالرز میں ہے جس پر میرا بیٹا قابض ہے اسکی شادی ہم نے اپنی پسند سے ہندوستانی لڑکی سے کی جو بدقسمتی سے ہماری زندگی کا بدترین فیصلہ ثابت ہوا وہ اپنے سسرال کے ساتھ مل کر میرا اور اپنی ماں کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔میری بیٹیاں یہاں کے مغربی ماحول میں ایسی رچ بس گئیں کہ ان کو گھر چھوڑے ہوئے اور ہماری شکل دیکھے ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں۔ہمارا اکلوتا بیٹا امیر ترین ڈاکٹر ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم جلد از جلد یا تو مر جائیں یا یہ گھر چھوڑ کر اولڈ ہوم منتقل ہو جائیں تاکہ وہ ملین ڈالرز اس گھر سے کما سکے‘ میری بیوی بچوں کے ان وحشیانہ رویوں سے پاگل ہو چکی ہے ساری رات بیٹیوں کو پکارتی ہے‘ اسکی آوازیں درودیوار سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے‘ کینیڈین گورنمنٹ اس کو اور مجھے بزرگوں کو ملنے والی امداد دیتی ہے ایک آیا میری بیوی کی صفائی ستھرائی کیلئے حکومت کی طرف سے آتی ہے جو اس کو روزانہ بناتی ہے صاف کپڑے پہناتی ہے میں  اپنی بیوی کی خدمت اس گھر بار کیلئے کبھی نہیں بھلا سکتا اس نے پوری جوانی‘ برف کے اس دیس میں بچوں کی پرورش میں اپنے لہو کو شامل کیا اور اس کے بڑھاپے میں اسکو معذوری اور دماغی مرض  دے دیا گیا اب اس بوڑھے شخص کے آنسو مسلسل  اسکے جھریوں والے گالوں پر بہنا شروع ہوگئے تھے میرا بیٹا یہ دل سوز منظر نہ دیکھ سکا‘ آٹھ کر دور چلا گیا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مجھے خوش قسمت کہنے والا شخص خوش قسمتی کو کیا معنی دیتا ہے‘ کچھ سوالات میرے ذہن میں بحیثیت ماں آنے لگے میں نے اس سے پوچھا کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے اپنے والدین سے یہی سلوک کیا ہو جو آج آپ کو پیش آرہے ہیں اس نے بہتے آنسوؤں سے کہا ہر گز نہیں جب میرا والد بیمار ہوا میں کینیڈا چھوڑ کر چلا گیا اپنے والد کو کیرالہ کے اچھے ہسپتال میں داخل کیا اس وقت تک ان کی خدمت کی جب تک انہوں نے آخری سانسیں نہیں لے لیں‘ میں آج تک سال میں سردی کے پانچ مہینے کیرالہ میں اسی طرح گزارتا ہوں جس طرح اپنے ماں باپ کی زندگی میں انکے گزارتا تھا‘ میرا اگلا سوال تھا کہ آخر آپ کی تربیت میں ایسی کون کون سی کمی تھی جو آج آپ دونوں والدین کو یہ حالات دیکھنا پڑ گئے ہیں‘ وہ آنسوؤں بھری آواز میں کہنے لگا کہ جو بچے یہاں پڑھتے ہیں یہاں بڑے ہوتے ہیں ان کا مزاج اور عادات مغرب کے رنگ میں ہی رنگی ہوتی ہیں ان کو ماں باپ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ورنہ تو میں نے انہی کیلئے کمایا‘ انہی کو کھلایا ان کی کوئی خواہش ادھوری نہیں چھوڑی‘ ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی لیکن سب کیسے غلط ہوا‘ مجھے علم نہیں آج پولیس کی مداخلت سے میں اپنے گھر میں اپنی بیوی کیساتھ رہ رہا ہوں‘ نہ جانے زندگی کی کتنی سانسیں ابھی باقی ہیں میں چاہتا ہوں کہ اپنی معذور بیوی کو کسی کے سہارے چھوڑ کر نہ جاؤں‘ میری بیٹیاں کبھی بھی گھر نہیں آتیں‘ ان کو ماں باپ سے کوئی محبت پیار نہیں ہے اسی لئے راتوں کو ان کو پکارنے والی ماں غم سے پاگل ہو چکی ہے‘ اس بوڑھے باپ کے آنسو مجھ سے بھی برداشت نہ ہوتے‘ میں ایک قدم آگے چل کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکو  حوصلہ اور برداشت کی تلقین کر رہی تھی لیکن میں اچھی طرح جانتی تھی کہ قریب المرگ بوڑھے والدین کیلئے نافرمان اولاد کتنے دکھ  کا سامان ہوتی ہے اولڈ ہوم میں رہنے والے ہر بوڑھی ماں اور  بوڑھے باپ کی یہی کہانی ہے دروازے کی طرف کئی بار نگاہیں اٹھتی ہیں واپس آجاتی ہیں‘ اپنے نظر نہیں آتے۔نگاہیں پانیوں کے سمندر میں ڈوبی رہتی ہیں دل کو کبھی قرار نہیں آتا میں اپنی دوائیاں لے کر اس مال سے بوجھل دل کے ساتھ واپس لوٹی مغرب میں آنے  اور یہاں زندگی گزارنے کے فلسفے پر  کئی بار غور کیا ایک نسل ساری زندگی محنت کرتی ہے اور آنے والی نسلیں یہاں کی چکا چوند میں ہمیشہ کیلئے گم ہو جاتی ہیں۔ہمارے وارث مغرب کی زندگی کی بے نام زندگی کو پسند کرتے ہیں ہاں شاید میں واقعی خوش قسمت تھی میرے بچے مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی تہذیب کو کبھی نہیں بھولے‘ آج بھی جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے مسجد کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں سرجھکا کر میری ڈانٹ سن لیتے ہیں‘ مجھے ایک آواز پر دوڑتے ہوئے سنبھالتے ہیں میرا دکھ سکھ ان کا اپنا ہوتا ہے۔