کھچڑی کیسے پکتی ہے؟ 

سندھ اور بلو چستان میں اسمبلیاں کا م کر رہی ہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں قومی اسمبلی اپنی جگہ قائم ہے سینیٹ موجود ہے آئینی طور پر 2023کو انتخا بات کا سال قرار دیا گیا ہے مگر سال کا کونسا مہینہ انتخا بات کا مہینہ ہو گا یہ بات صیغۂ راز میں ہے جمہوری ملکوں میں صوبائی انتخابات الگ وقت پر ہو تے ہیں ان کا الگ سال ہو تا ہے قومی انتخا بات کا الگ سال ہوتا ہے اس میں تاخیر نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں اس کا تصور نہیں ہے۔ یہاں اول روزسیاسی جماعتوں کے بیچ اعتما د کا فقدان چلا آرہا ہے کسی کو بھی دوسرے پر اعتما د نہیں نفسیات کی رو سے اعتما د کا فقدان احساس کمتری سے پیدا ہو تا ہے جب سیا سی جما عتیں اس بیماری میں مبتلا ہو تی ہیں تو ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں اور شک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں۔ اس شک کی بنا ء پر ہماری روایت پوری دنیا سے الگ ہے دوسرے ممالک میں منتخب حکومت اپنی مدت پوری کر کے انتخا بات کر اتی ہے کیونکہ  سب اُس پر اعتما د کر تے ہیں ہمارے ہاں انتخا بات کے لئے غیر منتخب نگران حکومت کا مطا لبہ کیا جا تا ہے آئین میں اس کی گنجا ئش رکھی گئی ہے اور جمہور ی دنیا میں اس کو عجو بہ خیال کیا جا تا ہے بسا اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ نگران حکومت پر بھی اعتماد نہیں کیا جا تا اس کو ڈبل عجو بہ کہا جا سکتا ہے مجھے ایک نامور مصنف کا لکھا ہوا واقعہ یا د آتا ہے مصنف عکسی مفتی  ایک مشہور شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہوں نے  اپنے بڑے کے ہمراہ مجھے کھا نے پر بلا یا وقت مقررہ پر ہم حا ضر ہوئے تو بولا آج کوئی بڑی دعوت نہیں ہے صرف آپ کے سامنے کھچڑی رکھنا ہے اور گپ شپ لگا نی ہے یہ بھی بتا نا ہے کہ کھچڑی کیسے پکتی ہے؟ اس کے بعد میز بان نے اپنے نو کر کو آواز دی اُس نے دور سے جواب دیا جی سائیں! میزبان نے کہا ہلکی آنچ والی آگ جلاؤ، پھر نوکر نے کہا جی سائیں! میزبان بولا آگ پر دیگچی چڑھاؤ، پھر وقفے وقفے سے سائیں حکم دیتا رہا، تھوڑا ساتیل ڈالو، چھیلے ہوئے پیا ز، دھلے ہوئے ٹما ٹر، نمک، مر چ، مصا لحہ ڈال دو، کف گیر ہلا ؤ اور خوب پکاؤ، اس کے بعد پا نی ڈال دو، پھر اُبلے ہوئے مونگ، پھر دُھلے ہوئے چاول اس کے بعدمیز بان نے کہا اب کف گیر ہلا ؤ اور ہلا تے رہو، آنچ کو اور بھی دھیما کر و، اور بھی دھیما کرو، ذائقہ چکھ لو، اخیر میں کہا لو جی کھچڑی تیار ہو گئی ہم کم و بیش ایک گھنٹہ یہ کارو ائی دیکھتے اور سنتے رہے اس کے بعد مصنف نے کھچڑی کے ذائقے اور کھچڑی کھا نے کے لطف کا کوئی ذکر نہیں کیا۔اس وقت عوام کی دلچسپی اس میں ہے کہ ان کے مسائل اور مشکلات کا نسخہ سامنے آئے اور کھچڑی پک جائے تاکہ ان ان کا انتظار ختم ہوانہیں کسی فلسفے کی بجائے جلد ہی ٹھوس نتائج دیکھنے کی توقع ہے۔ قدیم یو نا ن میں فلسفے کے طالب علم ایک بند کمر ے میں بیٹھ کر اس بات پر سالوں تک بحث کیا کر تے تھے کہ گھوڑے کے کتنے دانت ہو تے ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر گھوڑے کے دانت دیکھنے نہیں جا تا تھا چنا نچہ بند کمرے میں آنکھیں بند کر کے جو مفروضے قائم کئے جا تے تھے ان مفروضوں کو فلسفہ کہا جا تا تھا۔ضرورت تو یہ ہے بر سر زمین حقائق کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور بہت سے ایسے مسائل جس کا حل اس وقت نہایت ضروری ہے اس پر توجہ دیں۔ ان میں سب پر مقدم عام آدمی کو درپیش مشکلات ہیں جن کا مداوا اسی صورت ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے موقف کو توجہ سے سنیں اور پھر ان میں سے ایک متفقہ فارمولا پر عمل درآمد کرکے مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کریں۔ انتخابات کا مرحلہ بھی آہی جائیگا اور دیر آئید درست آئید کے مصداق اس کا نتیجہ جس کے حق میں بھی آجائے اسے قبول کرکے معاملات کو آگے جانے دیا جائے۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھتے ہوئے اگر سیاسی جماعتیں اپنے اہداف کے حصول کی کوشش میں رہیں گی تو یہ کھچڑی نہیں پکے گی اور عوام اپنے معاملات کے حل  کے منتظر رہیں گے۔