وقت کی بے ثباتی

اپنی کتاب”اداب کے اطراف میں“کے ذریعے ناصر علی سیّد قارئین کو کئی دہائی پرانے حالات میں لے جاتے ہیں، کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہارکرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ”کوئی کوئی خبر ٹائم مشین کی طرح ہوتی ہے اور بیٹھے بیٹھے آپ کو بیتے زمانوں میں ٹرانسپورٹ کردیتی ہے یہ خبر بھی ایسی ہی تھی جس نے پہلے مجھے چپ کرادیا اور پھر آنکھوں میں ایسا دھواں بھردیا کہ میری نظروں کے سامنے کا لمحہ موجود دھندلاگیا اور میں پلک جھپکنے میں اس دور کو صاف اور نمایاں دیکھنے لگا جو دور ریڈیو پاکستان کابے حد سنہرا اور معتبر دور تھا یہ ستر کی دہائی کی بات ہے جب میں نے ریڈیو پاکستان پشاور کے لائیو مارننگ شو”اُجالا“ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور اس زمانے کے مقبول و معتبر فنکاروں کے ساتھ کام کرنیکا موقع ملا تھا پھر شاید ہی ریڈیو کا کوئی شعبہ جو جس میں جھانکنے اور پرفارم کرنے کا موقع نہ ملا ہو ان شعبوں میں ڈرامہ اور فیچر سے لے کر مزاحیہ سکرپٹ لکھنے تک اور اناؤنسٹمنٹ‘ کمپیئرنگ ماڈریٹر سے لے کر کوئز ماسٹر تک کے خانوں کو کھنگالاٹاک شوز میں ادبی‘ حالات حاضرہ اور مذہبی موضوعات پر لکھا اردو پشتو اور ہندکو زبان میں بیک وقت کام کرنے کے ناتے ریڈیو کے سارے پروڈیوسرز سے ملاقات  دوستی میں بدل گئی اب ایف ایم کا دور ہے نئے ٹیلنٹڈ ڈی جیز اور آرجیز کی ایک فوج ظفر موج ہے جو ان چینلز
 پر دھوم مچا رہی ہے جو کرکٹ کے ٹونٹی ٹونٹی میچز کی طرح بہت مقبول بھی گردانے جاتے ہیں کیونکہ اب سننے والوں کی وہ کلاس بھی منقارزیر پر ہے جو ٹیسٹ میچز کی خوبصورتی اور ریڈیو کمنٹری پر سوجان سے فدا تھی اور ریڈیو ڈرامہ رات کو نشر ہوتا تو دوسرے دن دفتروں‘ کالجوں اور گھروں کے آنگنوں میں ڈسکس ہوتا تھا اور اب تو رات گئی بات گئی۔ ایک دن یہ ان ہونی ہوگئی جب مجھے ریڈیو کی ایک مستندومعتبر اور بے حد مہربان پروڈیوسر زبیدہ عصمت آپا نے بلایا اور کہا تم نے خواتین کے مسائل پر مبنی کبھی کوئی پروگرام کیا ہے میں نے مسکرا کر کہا کہ آپا  ہمارے ہاں کتنی ہی اچھی خواتین لکھاری موجود ہیں اور اتنی ہی ٹیلنٹڈ براڈکاسٹر بھی پھر بھلا میرے جیسے طفل مکتب کی کیا مجال کہ اس چہار دیواری میں داخل ہو۔ آپا نے کہا ناصر ڈائیلاگ مت بولو اور ایک پوری سیریز تمہیں کرنا ہے اور پہلا سکرپٹ مجھے دونوں میں ملنا چاہئے میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپا ان دنوں میں ایک الجھن میں گرفتار ہوں میرا مالک مکان گھر بیچ رہا ہے اور مجھے گھر خالی کرنے کا کہہ رہا ہے مگر مجھے نہ تو کوئی ایسا گھر مل رہا ہے جو سلیقے کا ہو اور جو ملتا ہے تو اس کا کرایہ یا ایڈوانس میری اوقات سے بڑھ کر ہوتا ہے ایک لمحہ کو وہ چپ ہوگئیں اور پھر ان کی مہربان آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اور کہنے لگیں‘ تمہارا یہ مسئلہ میں حل کردونگی تم سکرپٹ کی تیاری کرو پھر واقعی دوسرے ہی دن فردوس سینما کے پیچھے شاہ جی ڈاکٹر کے فلیٹس میں فلیٹ دلایا اب سوچتا ہوں کہ اس دور میں لوگ آپس میں کیسے جڑے ہوئے تھے زبیدہ آپا نے میرے مسئلے کو اپنا مسئلہ بنالیا تھا تو یہ مہربانی صرف میرے لئے نہیں تھی ان کی محبتوں اور شفقتوں کا یہ سلسلہ سب کیلئے تھا ہر آدمی کی وہ آپا تھی باجی تھی پھر زمانہ بدلا اور ٹی وی کا چلن عام ہوا تو میں نے انہیں اپنے ایک پروگرام کیلئے دعوت دی تو کہنے لگیں اب میں بھلا ٹی وی پر کیا بات کروں گی اور کیسی لگوں گی۔ میں نے کہا آپا ٹی وی کا شیشہ صرف چہرہ نہیں دکھاتا آپ کے رکھ رکھاؤ اور گفتگو کے ذریعے اندر کا حسن بھی سامنے لے آتا ہے اور آپ گفتگو کریں گی تو آپ مس پشاور بن جائیں گی مصنوعی ڈانٹ کے ساتھ کہنے لگیں تم ڈائیلاگ بولنے کا کوئی موقع ضائع مت کرنا پھر اس نے میرے پروگرام میں شرکت کی تو میں نے دوران پر وگرام
 پوچھا آپا سنا ہے گونگلو(شلغم) بہت اچھے پکاتی ہیں کہنے لگیں یہ سننے سے معلوم نہیں پڑتا کبھی گھر آؤ کھاؤ اور پھر بتاؤ‘ میں ضرور آؤنگا مگر پھر میں وعدہ وفا نہ کر سکا اور آپا بھی ریڈیو سے ریٹائر ہو کر گھر کی ہوگئیں کبھی کبھی صوفی بشیر احمد سے میں پوچھ لیتا وہ اکثر ان کی خبر لینے جایا کرتے تھے وہ خوبصورت زمانہ تھا ہر ریڈیو فنکار کی زبان پر زبیدہ آپا زبیدہ آپا کی پکار ہوا کرتی مگر یہ شوبز کی دنیا ہوا کی دنیا ہے ہر چیز ہوا ہو جاتی ہے پہلے آپ کا نام اور کام ہوا میں ہوتا ہے تب تک تو ٹھیک مگر ادھر ہوا سے ناتا ٹوٹا ادھر لوگوں کے حافظہ سے نکل گئے اب کون جانتا تھا کہ اتنا سنہری دور گزارنے والی زبیدہ آپا گزشتہ رات جب اپنا آدھا سفر طے کرچکی تو چپکے سے گمنامی کی بکل مار کر زمین کو اوڑھ لیا مجھے حبیب النبی ریڈیو کے جواں سال پروڈیوسر نے یہ خبر دی تو میں جیسے بجھ سا گیا خصوصاً جب اس نے کہاکہ آج دوسرا دن ہے کیا آپا اتنی گمنام تھی کہ اس کی عمر بھر کی ریاضت کا کوئی ذکر کوئی پروگرام کہیں سے بھی نہ ہوا کسی نے کسی کو اطلاع تک نہ کی کیا ہم اتنے کٹھور ہیں اتنے سنگ دل ہیں کہ ایک مہربان اورشفیق چہرہ مٹی کے سمندر میں ڈوب گیا اور ہم تماشا دیکھنے بھی نہ گئے۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ زمانے کی بے ثباتی ہے،نامی گرامی لوگ کتنی جلدی نظروں سے اوجھل ہوکر یادوں سے محو ہوجاتے ہیں۔