یادگار شادی

مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی یاداشتیں اس حوالے سے دلچسپ اور قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے والی ہیں کہ ایک تو ان کا طرز تحریر اور اسلوب منفرد ہے اور ساتھ ہی اپنی قوت مشاہدہ کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ واقعات کی جزیات کو بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، ایک مقام پر وہ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اس شام وہاں دنیا کے سب سے دراز قد جوان عالم چنا کی شادی تھی جس میں مجھے فوراً ہی شریک کرلیاگیا مگر مجھے یہ خیال ستائے جارہا تھا کہ یہاں کوئی میرا میزبان نہیں‘میں رات کہاں گزاروں گا‘ اس دوران مجھے حکومت کا مہمان خانہ مل گیا جس کے نگران نے مجھے اتنی رعایت سے نوازا کہ گیسٹ ہاؤس کا خصوصی مہمانوں کا کمرہ میرے لئے کھول دیا گیا‘ البتہ خبردار کردیا کہ رات ہونے سے پہلے کوئی سرکاری مہمان آگیا تو آپ کو کمرہ خالی کرنا ہوگا۔ابھی میں نے آمادگی پوری طرح ظاہر بھی نہیں کی تھی کہ کوئی سرکاری افسر صاحب تشریف لے آئے اور مجھے کمر ے سے جاتے ہوئے یوں دیکھا جیسے میں نے کوئی قصور کیا ہو۔ادھر عالم چنا کی شادی کے کھانے کا وقت ہوگیا اور میں وہاں چلا گیا، وہاں میری ملاقات کراچی کے ایک چھوٹے سے اخبار کے اتنے ہی چھوٹے سے رپورٹر سے ہوگئی جو کوٹری جیسے چھوٹے سے قصبے سے خبریں بھیجنے کا فرض سرانجام دیتا تھا مگر صاحب! رپورٹر صاحب نے مجھ سے پہلی بات یہ پوچھی کہ رات کو آپ کہاں قیام کریں گے، میں نے سرکاری مہمان خانے سے بے دخلی کی کہانی سنائی تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھا، قریب ہی ایک سرکاری اہلکار ہاتھ باندھے صحافی کی خدمت میں کھڑا تھا، صحافی نے اسے قریب بلاکر کہا”عابدی صاحب بھی وہاں پہاڑی کی چوٹی پر ریسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے، سارا انتظام صحیح ہونا چاہئے“اہلکار لپک کر کہیں چلاگیا۔(اس وقت تک موبائل فون کا رواج نہیں تھا)ذرا دیر میں ایک کار ہمیں لینے آگئی اور ہم دونوں کو نہایت دلکش پہاڑی کی چوٹی پر بنے ہوئے ریسٹ ہاؤس میں لے گئی جہاں سے سیہون شریف کا ایسا دلکش نظارہ پہلے تو شہنشاہ ہمایوں اور حمیدہ بیگم اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے کیاہوگا، بھٹو صاحب کے بارے میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کیونکہ ریسٹ ہاؤس میں مجھے سونے کیلئے جو بستردیاگیا اس پر بھٹو صاحب سو چکے تھے۔ابھی میں کوٹری کے چھوٹے سے نامہ نگار کے اثر ورسوخ پر حیرت زدہ تھا کہ پولیس کی کچھ شاندار گاڑیاں آئیں جس میں مقامی حکام بیٹھے تھے، انہیں میرے آنے کی خبر ہوئی تو وہ مجھ سے ملنے آئے تھے، وہ آتے ہی بولے کہ ”عابدی صاحب، آپ کو چاہئے تھا کہ ہمیں اپنے آنے کی خبر کرتے، یہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں اور ہمیں آپ جیسے مہمانوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔“میں دیر تک سوچتا رہا کہ کس کا اثر ورسوخ زیادہ ہے، میرا یا اس غریب کوٹری کے ضلعی نامہ نگار کا۔ نیچے شہر میں رات بھر جشن کا سماں رہا، وہ وہاں ہر رات کا معمول تھا، میں نے سونے سے پہلے اپنے تکیے کو سونگھا، میرا خیال تھا کہ اس میں بھٹو صاحب کی خوشبو ہوگی۔صبح ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ انفلوئنزا کا جو عرق میں غٹاغٹ پی گیا تھا وہ اب سر اٹھا رہا ہے۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ پرانی یادوں کو محفوظ کرنے کی اہمیت ہے، آج کے دن جوکچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے جلد ہی یہ ماضی کا حصہ بن جائے گا اور ایک طرح سے اس کی وقعت اور قیمت  بڑھ جاتی ہے، تاہم اس کا احساس بہت کم لوگو ں کو ہوتا ہے۔