پاکستانی کرکٹرز کی گولڈن جنریشن 

دو دہائیوں میں اب دوبارہ ایک ایسا موقع آیا ہے کہ ابھی ورلڈ کپ شروع ہونے میں پانچ ماہ باقی ہیں اور پاکستانی شائقین کو ٹیم پر بھروسہ ہے کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے فیورٹ ٹیموں میں سے ہے۔ان دو دہائیوں میں یہ ٹیم کئی مرتبہ پاکستانی مداحوں کے دل دکھا چکی ہے اور انھیں صدموں سے دوچار کر چکی ہے۔ 2007 میں بھی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونے کا صدمہ ہو یا 2011 موہالی میں انڈیا سے سیمی فائنل ہارنے کا رنج۔ 2015 میں کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد 2019 میں بھی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونا، دکھوں کا وہ تسلسل ہے جو کسی کے لئے بھی سہنا مشکل ہے۔تاہم اس مرتبہ پاکستان ٹیم سے امید لگانے والے مداحوں کے پاس آئی سی سی ون ڈے رینکنگز میں ٹیم کا سرِفہرست ہونے کا جواز بھی ہے۔یہ پوزیشن پاکستان نے  نیوزی لینڈ کو سیریز میں چار صفر کی برتری حاصل کرنے پر پائی ہے اور یہ ون ڈے میں رینکنگ سسٹم آنے کا بعد پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان اس درجہ بندی میں سرِفہرست آیا ہو۔بیٹنگ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کے ٹاپ تھری یعنی فخر زمان، امام الحق اور بابر اعظم تینوں ہی آئی سی سی ون ڈے بیٹنگ رینکنگ میں پہلے پانچ درجوں پر ہیں۔ ون ڈے کرکٹ میں تیز ترین پانچ ہزار رنز مکمل کرنے والے بابر اعظم پہلے، فخر زمان دوسرے جبکہ امام الحق پانچویں نمبر ہیں۔فاسٹ باؤلنگ پر نظر دوڑائیں تو حارث رؤف، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور ان کے بیک اپ باؤلرز جیسے محمد وسیم جونیئر اور احسان اللہ بھی اچھی فارم میں ہیں۔سپن آلراؤنڈرز میں شاداب خان اور محمد نواز انڈین پچزکے لئے موزوں ہیں اور گذشتہ کئی میچوں سے لیگ سپنر اسامہ میر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح مڈل آرڈر میں محمد رضوان اور سلمان علی آغا کی بہترین کارکردگی بھی حوصلہ افزا رہی ہے اور ڈومیسٹک کے اعداد و شمار کے مطابق ون ڈے کرکٹ افتخار احمد کا فیورٹ فارمیٹ ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ شاید اس حوالے سے تجزیے قبل از وقت اس لیے بھی ہیں کیونکہ پاکستان نے 2019 کے ورلڈ کپ سے اب تک بہت کم ون ڈے کھیلیں ہیں اور پاکستان کی موجودہ کارکردگی نیوزی لینڈ کی ایک کمزور ٹیم کے خلاف ہے۔ایسے میں مداحوں کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ سے امیدیں لگانا تو ٹھیک ہے لیکن کیا ابھی ٹیم میں مزید بہتری کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں کھیلوں سے وابستہ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئی سی سی رینکنگ میں سرِفہرست آنے کے حوالے سے فی الحال محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔یہ بہت خوش آئند بات ہے لیکن رینکنگز اکثر کچھ دیر کے لیے ہوتی ہیں۔ کچھ عرصے میں دوسری ٹیمیں کرکٹ کھیلنا شروع کریں گی اور صورتحال بدل جائے گی۔لیکن اس وقت یہ رینکنگ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی ٹیم گذشتہ ایک سال سے بہت اچھی پوزیشن میں ہے اور جو سوالات اس ٹیم کے بارے میں کچھ عرصے پہلے تک لوگوں کے ذہنوں میں تھے، جیسے مڈل آرڈر سے متعلق، وہ اب اچانک سے حل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جب ہر رول کے لیے ہمارے پاس کھلاڑی موجود ہے۔ عام طور پر جو ہماری پلیئنگ الیون ہوتی ہے اور جو متبادل کھلاڑی ہوتے ہیں ان کے ٹیلنٹ اور معیار میں بہت
 فرق ہوا کرتا تھا، تاہم اب ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت جو 16 کھلاڑیوں کا سکواڈ ہے وہ تو بہترین ہے، یہ ان کا ریکارڈ بھی بتاتا ہے لیکن عموما ًپاکستان کے ساتھ جو مسئلہ پیش آتا ہے وہ 11 کھلاڑیوں کے حوالے سے صحیح کامبینیشن بنانے کا ہے جو ابھی تک ہم حل نہیں کر سکے۔ ابھی ہمارے پاس 11 کے اعتبار سے پوری تیاری نہیں ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں اوورز زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے ہر پوزیشن کے لیے سپیشلائزڈ کھلاڑی ہوتا ہے، ابھی تک ہمارے مڈل آرڈر میں کچھ مسائل ہیں جو ورلڈ کپ سے پہلے ہمیں دور کرنے ہیں۔تاہم پاکستان ورلڈ کپ جیتنے کے لیے ٹاپ فور فیورٹ ٹیموں میں ضرور شامل ہے۔خیال رہے کہ عموماً ورلڈ کپ کے سال میں پاکستان کرکٹ تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے اور اس دوران کپتانی کے حوالے سے بھی بحث جاری رہتی ہے۔ 2011 اور 2015 کے ورلڈکپ سے قبل شاہد آفریدی اور مصباح الحق کی کپتانی سے متعلق تنازع چلتا رہا تھا، جبکہ  2003 کے ورلڈ کپ سے قبل یہی کشمکش وسیم اکرم اور وقار یونس کے درمیان تھی۔اس مرتبہ بھی افغانستان کے خلاف سیریز سے قبل ایسی خبریں گردش کرنے لگی تھیں جن میں بابر اعظم کی کپتانی کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے تھے تاہم پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے اس دوران بابر اعظم کے لیے ہمت کے پیغامات سے یہ تاثر زائل ہوا اور اب نیوزی لینڈ سے سیریز جیتنے کے بعد بابر اعظم کو ورلڈ کپ سے قبل کپتانی سے ہٹانا تقریبا ناممکن نظر آتا ہے۔ ہم پریس کانفرنسز کی حد تک تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم
 ورلڈکپ کو نظر میں رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک اچھا سکواڈ ہونے کے باوجود بڑے ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ سٹیج پر جا کر رہ جاتے ہیں جیسے پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس میں ہوا ہے۔کچھ عرصہ قبل شاہد آفریدی کے سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بننے پر ہم سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہو گا۔پھر شان مسعود کو نائب کپتان بنانے کی چہ مگوئیاں شروع ہوئیں لیکن اس ٹیم کی خوبی یہی ہے کہ یہ اس موقع پر متحد رہی ہے اور یہ کپتان کا اور ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ہماری نسل نے پہلی مرتبہ کرکٹرز کی اس گولڈن جنریشن کی وجہ سے اس ٹیم پر اعتماد کرنا شروع کیا ہے، یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ٹیلنٹڈ ہیں اور اس وقت ایک ایسی ٹیم بن چکی ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں۔گولڈن جنریشن اس ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے گذشتہ کچھ سالوں سے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ٹیم ان بلندیوں تک پہنچی ہے جس تک پچھلی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں اور بظاہر ان کے درمیان اچھی ہم آہنگی بھی بتائی جاتی ہے۔پاکستانی کرکٹزز کی یہ جنریشن پی ایس ایل کے آغاز کے بعد سے منظرِ عام پر آئی اور ان میں سے اکثر پاکستانی ٹیم میں اسی کی بدولت شامل ہوئے۔تاہم پاکستانی ٹیم2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد سے باقی ٹیموں کے مقابلے میں کافی کم ون ڈے کھیلی ہیں۔ 2019 کے بعد سے پاکستان نے اب تک صرف 27 ون ڈے کھیلے ہیں۔ اس دوران افغانستان کے علاوہ باقی تمام ٹیموں نے اس سے زیادہ ون ڈے کھیل رکھے ہیں۔پاکستان کے لیے تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ ون ڈے ورلڈ کپ تک اس کی صرف افغانستان کے ساتھ ون ڈے سیریز اور ایشیا کپ شیڈول ہے۔ تاہم ان دونوں کے حوالے سے تاحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ منعقد ہو سکیں گے یا نہیں۔ یہ ایشیا کپ میں شامل دیگر ٹیموں کے بھی مفاد میں ہے کہ وہ ورلڈ کپ سے پہلے ایک بڑے ٹورنامنٹ کا حصہ ہوں۔ اس وقت ہمارے پاس تمام پوزیشنز کے لئے کھلاڑی اور ان کے بیک اپ موجود ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں گیم ٹائم کی ضرورت نہیں ہے اس کی اپنی اہمیت ہے۔ اس لیے اگر ایشیا کپ اور افغانستان کے ساتھ سیریز نہیں ہو پاتی تو پی سی بی آنے والے دنوں میں کوئی سیریز منعقد کروا دے گا۔  پاکستان نے تاحال مڈل آرڈر میں رول کے حساب سے کھلاڑی نہیں کھلائے جس کی وجہ سے ابھی تک ہمارا مڈل آرڈر کا مسئلہ برقرار ہے۔ آپ نمبر چار پر اوپنرز کو کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ اگر حارث سہیل زخمی نہ ہوتے تو افتخار احمد تو اس ٹیم کا حصہ ہی نہیں تھے جو اس فارمیٹ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھاتے رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ایک فارمیٹ کی بنیاد پر دوسرے فارمیٹ میں کھلاڑی کو ڈراپ کرنے یا سیلیکٹ کرنے کی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے یہ امر خوش آئند ہے کہ آغا سلمان نے بہت اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اوروہ پاکستان کے لئے مڈل آرڈر میں مسائل کا حل بن کر سامنے آئے ہیں۔اسی طرح رضوان بہت اچھا کھیل رہے ہیں اور محمد حارث اور افتخار احمد کی شکل میں ہمارے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو میچ فنش کر سکتے ہیں۔