عالمی تشویش

افغانستان کی طالبان حکومت تاحال دنیا کو متاثر نہیں کر سکی لیکن اس کے باوجود بین الاقوامی برادری بالخصوص افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو احساس ہے کہ افغان طالبان سے بات چیت کرنے کے علاوہ چارہ نہیں کیونکہ جیسے بھی ہیں یہی افغانستان کے حکمران ہیں۔ پاکستان اور چین اس سوچ پر سختی سے کاربند ہیں‘ جس کا ثبوت حال ہی میں اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونے والے پانچویں سہ فریقی وزرائے خارجہ ڈائیلاگ سے ملتا ہے کہ افغان حکومت کو اپنے طرزحکمرانی پر نظرثانی کرنے پر رضامند کیا جائے۔ توقع ہے کہ افغان سرزمین اور حکومتی وسائل کسی بھی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونگے‘ سہ فریقی کے درمیان مذاکرات کا مرکزی نکتہ ’انسداد دہشت گردی‘ اور ’اقتصادیات‘ رہا۔ پاکستان اور چین نے افغان حکومت کو یاد دلایا کہ وہ اِس بات کو بہرصورت یقینی بنانے کیلئے مزید کام کرے کہ افغانستان پھر سے دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ نہ بن جائے‘ مزید برآں‘ چین پاکستان اقتصادی 
راہداری (سی پیک) منصوبے کو افغانستان تک توسیع دینے کی تجویز علاقائی جغرافیائی اقتصادیات کے لئے بھی اہم ہوگی لیکن اگر یہ عملاً کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس مکالمے نے چین کی علاقائی اور عالمی امن سازی کے طور پر کردار کو ظاہر کیا ہے اور چین کی یہ شدید خواہش بھی سامنے آئی ہے کہ وہ افغانستان کو ایسا مستحکم دیکھنا چاہتا ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک ہیں۔ بیجنگ کے لئے دنیا کے مشکل ترین اور اہم ترین اہداف میں افغانستان سرفہرست ہے جس کے حالات وہ اپنی کامیاب سفارت کاری کے ذریعے معمول پر لانا چاہتا ہے۔خوش آئند ہے تینوں وزرائے خارجہ 
نے انسداد دہشت گردی تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے‘ پاکستان کیلئے افغانستان میں عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی تشویش کا باعث ہے جس کے بارے میں کابل کو متعدد مواقع پر آگاہ بھی کیا جا چکا ہے۔چین عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے بھی محتاط ہے‘ گزشتہ ماہ ہی اس کی وزارت خارجہ نے خدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”افغانستان کے حالات نہ صرف چین کی سلامتی بلکہ یہ پورے خطے کیلئے ’سنگین خطرہ‘ ہیں۔“ پاکستان‘ چین اور دیگر علاقائی ریاستوں کو طالبان پر دباؤ جاری رکھنا چاہئے تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گرد گروہوں کو افغان سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز بنانے کا موقع نہ ملے اور طالبان کو بار بار بتایا جانا چاہئے کہ جب تک وہ اِن گروہوں کو لگام نہیں ڈالتے‘ اُس وقت تک وسیع تر تجارتی 
روابط اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ان کے روابط بحال نہیں ہوں۔ واضح رہے کہ افغان وفد کو چین کے وزیر خارجہ چن گینگ نے ”جامع حکمرانی اور اعتدال پسند پالیسیوں کو اپنانے“ کی ضرورت کی یاد دہانی کرائی جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ”افغان فریق کیلئے اُن کا پیغام ہے کہ ”ہماری مدد کریں“‘ کئی دہائیوں کے عدم استحکام اور جنگ کے بعد‘ افغانستان کے عوام کو عسکریت پسندی سے پاک ماحول (پائیدار امن) کی ضرورت ہے‘ جہاں وہ اپنے ملک کی تعمیر نو کر سکیں اور لاکھوں لوگوں کیلئے خوشحالی لا سکیں‘ جو اِس وقت بھوک کو دور رکھنے کیلئے بین الاقوامی برادری کی امداد پر انحصار کر رہے ہیں‘ افغانستان صرف اسی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے جب تمام افغان‘ بشمول افغان خواتین ملک کی معاشی ترقی و حکمرانی میں اپنا کردار ادا کریں اور تمام طبقات کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے جبکہ بین الاقوامی برادری کو یقین دلانا ہوگا کہ وہ افغانستان کو موجودہ مشکل دور سے نکلنے میں خاطرخواہ مدد فراہم کریں گے۔