ون ڈے سیریز میں کامیابی، پاکستان کو کیا سیکھنا ہوگا؟

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ ایک روزہ میچز کی سیریز کا اختتام گرین شرٹس کی چار ایک سے فتح پر ہوا۔ اس سیریز میں میزبان ٹیم کو نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے کا موقع ملا جب کہ بعض امورپر کرکٹ بورڈ کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔سیریز کے دوران اوپننگ بلے باز امام الحق کو ڈراپ کرنے کا معاملہ ہو یا ٹیم مینجمنٹ کی روٹیشن پالیسی، سوشل میڈیا صارفین اور مبصرین دونوں نے اس پرمختلف آرا ء کا اظہار کیا۔ روٹیشن پالیسی کی وجہ سے شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ جیسے فاسٹ باؤلرز کو آرام کا موقع بھی ملا۔مبصرین کے خیال میں ان فارم کھلاڑیوں کی سلیکشن سے ٹیم کو فائدہ ہوا لیکن کپتان بابر اعظم کے 100ویں میچ سے قبل جشن منانا ٹیم کے حق میں نہیں گیا۔ کپتان کو میچ سے قبل100 نمبر کی شرٹ نہ پہنائی جاتی تو ممکنہ طور پر وہ دباؤ میں بھی نہ آتے۔ دباؤ کی وجہ سے ہی اپنے 100ویں میچ میں وہ بیٹنگ میں کارکردگی نہ دکھا سکے جب کہ ٹیم بھی شکست کھا کر ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن سے محروم ہوگئی۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر مکی آرتھر کے چارج سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا فرق جو اس سیریز میں نظر آیا وہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کی طرز پر پاکستان ٹیم میں پہلی بار روٹیشن پالیسی تھی۔اس روٹیشن پالیسی کی وجہ سے جہاں نائب کپتان شاداب خان کو سیریز کے دوران آرام کا موقع ملا، وہیں شاہین آفریدی اور حارث رؤف بھی چند میچوں میں بینچ پر بیٹھے نظر آئے۔مبصرین کے مطابق اس پالیسی سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قومی ٹیم کو اسامہ میر کی شکل میں ایک اچھا لیگ سپنر ملا، جس نے ایک میچ میں چار کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کیا جب کہ نچلے نمبروں پر آکر محمد حارث تیز رنز سکور کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ زیادہ تر کھلاڑیوں نے روٹیشن پالیسی پر اعتراض کرنے کے بجائے اسے ایک بہتر قدم سمجھ کر قبول کیا۔روٹیشن پالیسی پر اوپنر امام الحق کے علاوہ کسی بھی کھلاڑی نے آواز نہیں اٹھائی۔تیسرے ون ڈے میچ میں 90 رنز بنانے والے امام الحق کو اگلے دو میچوں میں نہ کھلانے پر شائقین کرکٹ کو حیرانی ہوئی۔ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے ان کی میچ کے بعد پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں کو جب کہ بعض صارفین نے روٹیشن پالیسی پر ان کی تنقید کو اس کی وجہ قرار دیا۔ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے امام الحق کو چوتھے میچ سے قبل فٹنس کی وجہ سے ڈراپ کرنے کا بتایا تھا اور ان کی جگہ شان مسعود کو کھلایا گیا جنہوں نے 44 رنز کی اننگز کھیلی اور پانچویں میچ کے لیے اپنی جگہ پکی کی۔ تاہم امام الحق نے آخری میچ میں ڈراپ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ زندگی ایک غیر متوقع سفر ہے۔ اس لئے کسی سے کچھ امید نہ رکھیں صبر کریں۔سوشل میڈیا صارفین کی رائے میں امام الحق کے اس بیان سے آخری میچ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے حوصلے پست ہوئے ہوں گے۔دوسری جانب مہمان ٹیم نیوزی لینڈ نے اپنے بیٹر ڈیرل مچل کو دوسینچریاں بنانے کے باوجود پانچویں میچ میں ڈراپ کیا لیکن انہوں نے نہ اس پر کوئی بیان دیا نہ سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ کی۔عام طور پر میچ کے بعد پریس کانفرنس میں یا تو کپتان کو پریس کانفرنس کے لیے بھیجا جاتا ہے یا پھر مینجمنٹ کا کوئی فرد جیسے کوچ یا مینیجر کی کارکردگی پر بات کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ البتہ پاکستان میں میچ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہیں جو بعض اوقات کوئی ایسا بیان بھی دے دیتے ہیں جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں دوسرے میچ میں کامیابی کے بعد محمد رضوان کا پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرنا ہو یا تیسرے ون ڈے میچ میں 90 رنز بنانے کے بعد امام الحق کا ٹیم کو مزید تجربات نہ کرنے کا مشورہ دینا ہو، ان دونوں بیانات سے کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ کے اختلافات سامنے آئے۔بعض مبصرین کے مطابق کھلاڑیوں کو بریفنگ دے کر پریس کانفرنس میں بھیجا جانا چاہئے تاکہ وہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے مشکلات کھڑی ہوں۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز میں اچھی کارکردگی دکھانے کے بعد مہمان ٹیم نے مارک چیپمین کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل کیا تھا لیکن پاکستان نے افتخار احمد اور عماد وسیم کو ان کی پرفارمنس پر ون ڈے سیریز میں جگہ نہیں دی۔تجربہ کار بلے باز حارث سہیل کے زخمی ہونے کے بعد افتخار احمد کو قومی ٹیم میں شامل کیا گیا اور انہوں نے آخری ون ڈے میچ میں 94 رنز بناکر اپنے فارم میں ہونے کا ثبوت دیا۔کرکٹ کے مبصرین کے خیال میں عماد وسیم کو بھی سکواڈ میں جگہ دینی چاہیے تھی تاکہ ورلڈ کپ سے قبل ون ڈے فارمیٹ میں بھی ان کو آزمایا جاسکتا۔رواں سال کے آغاز میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والی سیریز میں سابق کھلاڑی سائمن ڈول نے سٹرائیک ریٹ کی اہمیت پر بات کی تھی جس سے کئی سابق کرکٹرز ناراض بھی ہوئے تھے لیکن اس ون ڈے سیریز میں یہ بات واضح ہوئی کہ سٹرائیک ریٹ مختصر فارمیٹ میں کتنا اہم ہوتا ہے۔آخری ون ڈے میچ میں شان مسعود نے 20 گیندوں پر سات رنز سکور کیے اس دوران ان کا اسٹرائیک ریٹ لگ بھگ 35 رہا۔ جس پر انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ مبصرین کے خیال میں ان کی سست اننگز کے سبب دوسرے اینڈ پر موجود فخر زمان پر بھی دباؤ بڑھا اور ان کا سٹرائیک ریٹ بھی 51 فی صد ہی رہا۔اسی طرح نمبر چار پر بیٹنگ کے لئے آنے والے محمد رضوان کے 15 گیندوں پر نو رنزسے ان کے بعد آنے والے بیٹرز پر دبا ؤبڑھا۔آخر میں بات کپتان بابر اعظم کے ایک ایسے سنگ میل کی، جس کو مبصرین کے مطابق اگر میچ کے بعد منایا جاتا تو بہتر ہوتا۔مبصرین کی رائے میں 100ویں میچ میں انہیں 100نمبر کی خصوصی شرٹ پہنا کر بلاضرورت دباؤ میں ڈالا گیا۔مبصرین کے مطابق اگر بابر اعظم اس میچ میں دباؤ میں نہ ہوتے توشاید قومی ٹیم میچ جیت کر نمبر ون پوزیشن پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتی۔