سپریم کورٹ، عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار، رہا کرنے کا حکم

**سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے ہونے والی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیدیا اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیدیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی گرفتاری کیخلاف دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، دیگر ججز میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر شریک ہیں۔

پی ٹی آئی کی طرف سے سینئر وکیل حامد خان دلائل دینے سپریم کورٹ پہنچے، گزشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کیخلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔

دن بھر کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو ساڑھے چار بجے عدالت میں پیش کیا جائے، عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد عمران خان کو تاخیر سے پہنچایا گیا، انہیں سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا تھا ۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے عمران خان سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں۔

کیس سننے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں ہونے والی گرفتاری کو غیر قانونی دیدیا۔

اسی دوران عدالت کی طرف سے حکم دیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اسلام آباد ہائیکورٹ سے کل رجوع کریں اور آپ کو عدالت عالیہ کا فیصلہ ہر حال ماننا ہو گا۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے لیے مہلت دی جائے ، حامد کی درخواست سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد کر دی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کل اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کی سماعت کرے، جب ایک شخص عدالت آتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ سرنڈر کرتا ہے۔

اسی دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہا کہ ذوالفقاربھٹواوربینظیربھٹوجیسےلیڈردوبارہ نہین آئیں گے، اتنے بڑے لیڈرز کو مارنے کے بعد بھی حالات کنٹرول میں رہے۔ خان صاحب سیاسی ماحول سیاست دانوں نے پیدا کرنا ہے، سپریم کورٹ کی وجہ سے آپ آج یہاں کھڑےہیں۔

اس سے قبل سماعت کے دوران جسٹس اطہر اللہ نے مزید پوچھا کہ کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟، یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے، کیا مناسب نہ ہوتا کہ نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟۔

وکیل عمران خان حامد خان نے جواباً کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کرانے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، بایو میٹرک کرارہے تھے کہ رینجرز نے کمرے پر ہلہ بول دیا، رینجرز کی جانب سے دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، بایو میٹرک کرانا عدالتی عمل کا حصہ ہے، عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پُرتشدد ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، عدالتی حکم کے مطابق درخواست دائر ہوئی تھی مگر مقرر نہیں ہوئی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بایومیٹرک کے بغیر درخواست دائر ہوسکتی ہے؟۔ حامد خان نے جواب دیا کہ بایومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے، نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کیخلاف کارروائی ہوئی تھی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی اسی یقین دہانی پر 9 نیب افسران توہین عدالت سے بچے تھے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا؟۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ عمران خان کو 80 سے 100 لوگوں نے گرفتار کیا، 100 رینجرز اہلکار عدالتی احاطے میں آئیں تو عدلیہ کا احترام کہاں گیا، 100 لوگوں کے داخلے سے تو احاطے میں خوف پھیل جاتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرینڈر کرنیوالا گرفتار ہو تو کیا کوئی عدلیہ پر اعتماد کرے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرینڈر کرنیوالا گرفتار ہو تو کیا کوئی عدلیہ پر اعتماد کرے گا، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کا عمل سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا، عدالت صرف انصاف تک رسائی کے حق کا جائزہ لے گی۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کارروائی کے دوران عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کا نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان پر حملہ ہوا اور سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی، عمران خان دہشت گردوں کے ریڈار پر تھے، رینجرز نے جس انداز سے گرفتاری کی اس کی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹ سے رجسٹرار کی اجازت کے بغیر لے جایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کئی سال سے یہ حرکتیں منتخب نمائندوں کے ساتھ کررہا ہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں۔ سلمان صفدر نے بتایا کہ اگلے ہی دن اسد عمر کو ہائیکورٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس اطہر نے پوچھا کہ کیا بایومیٹرک کا عمل مکمل ہوگیا تھا؟۔ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا، درخواست پر اسی دن سماعت کی استدعا بھی کی گئی تھی۔

سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے تھے، سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ انہیں ابھی تک موصول نہیں ہوئے۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ سیاسی قیادت سے بھی عدالتی پیشی پر اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد جو ہوا اسے رکنا چاہئے تھا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے، میانوالی کی ضلعی عدلیہ پر بھی حملہ ہوا، معلوم کریں کہ یہ حملہ کس نے کیا؟، ضلعی عدلیہ پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان گھر یا عدالت کے باہر سے گرفتار ہوتے تو آج یہاں نہ آتے۔ حامد خان نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ عدالت میں وہی لوگ آتے ہیں جنہیں اجازت ہو، عمران خان کا کوئی کارکن یا جتھہ عدالت میں نہیں تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا نیب نوٹسز کا جواب دیا گیا تھا؟، وکیل عمران خان نے بتایا کہ جی ہاں نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری کی سطح پر گرفتاری نہیں ہوسکتی، انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کو دینا لازمی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا عمران خان اس کیس میں شامل تفتیش ہوئے تھے؟۔ شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا، نیب کا وارنٹ ہی غیر قانونی تھا۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ نیب وارنٹ کا نہیں تعمیل کرانے کا طریقۂ کار اصل ایشو ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کئے تھے، نیب کی تفتیش میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟۔ وکیل عمران خان نے بتایا کہ نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا۔

جسٹس اطہر نے پوچھا کہ کیا نیب نوٹس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا؟، قانون پر عمل کی بات کرتے ہیں مگر خود کوئی عمل نہیں کرتا، سب کی خواہش ہے کہ قانون پر دوسرے عمل کریں گے، واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرالیتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق مارچ کے نوٹس کا جواب 2 ماہ بعد مئی میں دیا گیا، کیا عمران خان نے قانون نہیں توڑا تھا؟۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو صرف ایک ہی نوٹس موصول ہوا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عملداری کی بات کررہے ہیں، اصل معاملہ انصاف کے حق تک رسائی کا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرالیتے ہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ جسٹس اطہر نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے کئی سال سے سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی کاموں کا الزام لگتا رہا، کیا نیب نے گرفتاری سے قبل رجسٹرار کی اجازت لی تھی؟۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ وارنٹ کی تعمیل کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھا، وارنٹ پر عملدرآمد وزارت داخلہ نے ہی کرایا تھا۔ جسٹس اطہر نے پوچھا کہ کیا عدالتی کمرے میں عملدرآمد وزارت داخلہ نے کیا؟۔ اصغر حیدر نے کہا کہ حقائق معلوم نہیں، آج دوپہر ڈیڑھ بجے ہی تعینات ہوا ہوں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے کہا کہ وارنٹ نجی شخص بھی تعمیل کراسکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب خود بھی اپنے وارنٹ پر عملدرآمد کراتا رہتا ہے، کیا نیب نے عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کئے گئے تھے؟۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا تھا۔ جسٹس اطہر بولے کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں تھے، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟۔

چف جسٹس نے کہا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 تاریخ کو گرفتاری ہوئی، 8 دن تک نیب نے خود کوشش کیوں نہیں کی؟، کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارت داخلہ کو خط 8 مئی کو کیوں لکھا گیا؟۔

سردار مظفر نے بتایا کہ 9 مئی کی سماعت کی وجہ سے وزارت داخلہ کو 8 تاریخ کو خط لکھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ عمران خان تو لاہور میں رہائش پذیر تھے،، نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں کہا؟، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔

سردار مظفر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے ہیں، نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خطرہ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بقول وارنٹ پر عملدرآمد کا طریقۂ کار وفاقی حکومت نے خود طے کیا تھا؟ کیا نیب کا کوئی افسر گرفتاری کے وقت موجود تھا؟۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پوچھا کہ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا؟۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے وارنٹ تعمیل کرائی، عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے نیب وارنٹ کی تعمیل کرائی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کررہی تھی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی۔

چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ رینجرز کے کتنے اہلکار گرفتاری کیلئے موجود تھے؟۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام نے کہا کہ رینجرز عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے موجود تھی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔

سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی آمد کے موقع پر کوئی پارٹی رہنماء یا کارکن نہیں آئے گا۔

عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو ساڑھے 4 بجے سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی شہری یا کارکن عدالت نہ آئے، ہر شہری کو قانون کا تابع ہونا چاہئے۔

پراسیکیوٹرل جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے اپنے افسران کو عدالتی حدود سے گرفتاری سے روک رکھا ہے، نیب گرفتاری سے لاتعلق ہے اس لئے رجسٹرار سے اجازت لینے کا علم نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟، ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بایومیٹرک برانچ کے افسر کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ عمران خان کو کہیں اور سے گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، وہ ہر پیشی پر اپنے کارکنوں کو کال دیتے تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جہاں سے گرفتاری ہوئی تھی، سارا عمل وہیں سے ریورس کرنا ہوگا، عمران خان کو بایو میٹرک کراتے وقت گرفتار کیا گیا تھا، بایومیٹرک کے مرحلے سے ہی سارا عمل دوبارہ شروع ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو واضح ہوگیا کہ کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی، 2010ء سے 2012ء تک عدالتوں میں 31 قتل ہوئے تھے، ایسا ہونے دیا تو نجی تنازعات بھی عدالتوں میں ایسے ہی نمٹائے جائیں گے، بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ ایکشن لیا اور اگلے سال کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے، حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہوا ہے، عدالت سے گرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، وارنٹ گرفتاری کی قانونی حیثیت پر رائے نہیں دینا چاہتے، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جائے؟، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عدالت عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ کرے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی درخواست ضمانت پر ہائیکورٹ فیصلہ کرے تو مناسب ہوگا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ملک میں بہت کچھ ہوچکا، وقت آگیا ہے قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ احتساب عدالت عمران خان کا ریمانڈ دے چکی ہے۔ جسٹس اطہر کا کہنا تھا کہ بنیاد غیرقانونی ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی، وقت آگیا ہے کہ مستقبل کیلئے مثال قائم کی جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں کہ وارنٹ قانونی تھے یا نہیں؟۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کو کل عمران خان کی درخواست پر فیصلے کا کہہ سکتے ہیں، نہیں چاہتے کہ کسی شہری کو انصاف کے حق سے محروم رکھا جائے، کسی بھی عدالت کی حدود سے گرفتاری نہیں ہونی چاہئے، اسی طرح ہوتا رہا تو کوئی عدالت سے رجوع نہیں کرسکے گا، آج ہی حکم جاری کریں گے۔

اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ہی عدالت آئے تھے، یہ سیدھا سادھا توہین عدالت کا کیس ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کل تک مہلت دے، مزید معاونت کروں گا۔ جسٹس اطہر نے واضح کیا کہ عمران خان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو عدالت اجازت نہیں دیتی، اس انداز سے گرفتاری برداشت نہیں کی جاسکتی۔

ایک اور درخواست دائر

سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کی سہ پہر اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ مختلف مقدمات میں ضمانت کیلئے وہاں پہنچے تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کو نیب نے رینجرز کی بھاری نفری کے ہمراہ گرفتار کیا، انہیں پہلے نیب راولپنڈی آفس اور بعد ازاں پولیس ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد منتقل کیا گیا۔

تحریک انصاف سربراہ کیلئے پولیس ہیڈ کوارٹرز کے گیسٹ ہاؤس میں ہی خصوصی طور پر عدالتیں قائم کی گئیں، جس نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں نیب کے حوالے کیا، تاہم قومی احتساب بیورو ان سے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں ہی تفتیش کرے گا، نیب نے عدالت سے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی تھی۔

قومی احتساب بیورو سابق وزیراعظم عمران خان سے 50 ارب روپے سے زائد کے القادر ٹرسٹ کیس میں باضابطہ تحقیقات کا آج سے آغاز کرے گا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نیب کیسز میں گرفتاری کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی ہے، جس میں عدالت عظمیٰ سے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی تحقیقات کرانے اور ان کی رہائی کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں وفاق، وزارت دفاع اور نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔ وکیل نے استدعا کی ہے کہ عدالت عظمیٰ عمران خان کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم دے۔

دوسری جانب ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کئی اہم رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

گرفتار رہنماؤں میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، عمر سرفراز چیمہ، ملیکہ بخاری، مسرت اقبال چیمہ سمیت دیگر شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف جی ایچ کیو، کور کمانڈر لاہور اور دیگر سرکاری عمارتوں اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں مختلف شہروں میں کئی مقدمات بھی درج کرلئے گئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ تین خواتین سمیت 7 رہنماؤں اور 200 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر پرتشدد مظاہروں اور املاک کو نقصان پہچانے کا الزام ہے۔

تین روز سے جاری مظاہروں کے دوران پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں فائرنگ سے 10 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں، جاں بحق افراد میں پی ٹی آئی کارکنان بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں پولیس اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد ہے۔