چیٹ جی پی ٹی بوٹ اور سیاست 

مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے  کمپیوٹر بوٹ کی ایجاد نے پہلے تو سب کو خوش اور حیران کیا، لیکن اس ایپ کی غیر معمولی ذہانت اب یہ خوف طاری کر رہی ہے کہ وہ انسان کی ذہانت کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے  اور اگر چیٹ جی پی ٹی نے سیاست پر غلبہ پا لیا تو پھر سیاست کیا رخ اختیار کرلے گی؟اے آئی بوٹ چیٹ جی پی ٹی اب شاعری کر رہا ہے، ڈراموں کے سکرپٹ لکھ رہا ہے۔ میڈیا کے نیوز روم میں خبریں ترتیب دے رہا ہے۔ موسیقی کی دھنیں بنا رہا ہے۔ وکیلوں کی مدد کے لیے مقدمات کے دلائل بنا کر دے رہا ہے۔ اور اب اس نے سیاست میں بھی ہاتھ مارنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے بعد ماہرین یہ سوچ رہے ہیں کہ اس کے سیاست پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی بوٹ کو منظر عام پر آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اسے گزشتہ نومبر میں ایک امریکی کمپنی اوپن اے آئی کے ذریعے لانچ کیا گیا تھا۔بوٹ اصل میں روبوٹ کا مخفف ہے۔ یہ ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام ہے جو روبوٹ کی طرح خودکار طریقے سے کام کرتا ہے اور اپنے کام کے لئے انسانی دماغ کی طرح اپنی ذہانت سے کام لیتا ہے جسے ہم مصنوعی ذہانت کہتے ہیں۔اس ایپلی کیشن کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جب اس سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو انٹرنیٹ پر دستیاب لامحدود ڈیٹا میں سے سوال سے متعلق معلومات اکھٹی کرتا ہے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب تیار کر کے مہیا کر دیتا ہے۔انسانی دماغ بھی کوئی جواب دینے کے لیے اس ڈیٹا کو استعمال کرتا ہے جو اس کی یاداشت میں محفوظ ہوتا ہے۔اس یاداشت کا تعلق انسان کے مشاہدے اور اس علم سے ہوتا ہے جو اس نے حاصل کیا ہے۔ جس کے بعد انسانی دماغ اپنی ذہانت سے اس ڈیٹا کی بنیاد پر جواب تیار کرتا ہے۔جی پی ٹی بوٹ کی رسائی انٹرنیٹ پر پھیلے ہوئے لا محدود ڈیٹا تک ہے، اس لیے اس کے پاس زیادہ بڑا ذخیرہ ہے۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے جی پی ٹی بوٹ اپنے ہر تجربے سے سیکھتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی سطح رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی ہے اور اگر یہ عمل جاری رہا تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ وہ انسان سے آگے نکل جائے گا۔اگرچہ سیاست کے شعبے میں جی پی ٹی بوٹ
 کااستعمال ابھی بہت محدود ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال میں اضافہ سیاست کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا کا سامنا مصنوعی ذہانت کے بوٹ سے اس وقت ہوا جب انہوں نے حزب اختلاف کے ایک رکن پارلیمنٹ کے صحت کی اصلاحات سے متعلق سوالات کے جواب دئیے۔ ان کے ایک حریف نے یہی سوال چیٹ جی پی ٹی کے سامنے رکھے۔ اس کا دعوی ہے کہ بوٹ کے جوابات وزیراعظم کی نسبت زیادہ مخلصانہ تھے۔کشیدا نے اپنے موقف کادفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے جوابات کی نوعیت زیادہ خصوصی تھی۔فرانسیسی ٹریڈ یونین کی سربراہ سوفی بینٹ نے صدر ایمانوئل میکرون کی حالیہ تقریر کا سخت تنقیدی جائزہ لیا ہے جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ایسے گہرے تنقیدی نکات چیٹ جی پی ٹی ہی تیار کر سکتا ہے۔جی پی ٹی بوٹ کو تقریریں لکھنے اور قوانین کا مسودہ تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جا رہاہے۔پچھلے مہینے،امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن نینسی میس نے سینیٹ کمیٹی میں مصنوعی ذہانت کے ممکنہ استعمال اور نقصانات پر پانچ منٹ کی تقریر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے تقریر سے پہلے یہ بھی بتایا انہوں نے یہ تقریر چیٹ جی پی ٹی بوٹ سے لکھوائی ہے۔امریکہ کے ایک اور سیاست دان بیری فائن گولڈ، ننسی سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے جنوری میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی ٹیم نے میساچوسیٹس سینیٹ کے لئے ایک قانونی مسودہ کی تیاری کے لیے چیٹ جی پی ٹی سے مدد لی تھی۔بتایا گیا ہے کہ اس مسودے میں مصنوعی ذہانت کے اس بوٹ نے منفرد نظریات متعارف کرائے تھے جن میں چیٹ بوٹس اور مصنوعی
 ذہانت کو قابو میں رکھنا بھی شامل تھا۔سیاست کے حوالے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بوٹ کی نہ صرف ذاتی پسند اور ناپسند ہوتی ہے بلکہ وہ اس کا اظہار بھی کر دیتاہے۔ حال ہی میں اس وقت ایک تنازعہ کھڑا ہوا جب چیٹ جی پی ٹی سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف میں ایک نظم لکھنے کے لیے کہا گیا۔ لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ نظم لکھنے سے انکار کیا بلکہ ان کی جگہ سنبھالنے والے صدر جو بائیڈن کی مدح میں کئی اشعار بھی لکھ ڈالے۔خلائی مہمات کی امریکی کمپنی سپیس ایکس اور الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے یہ انتباہ کرتے ہوئے کہ مصنوعی ذہانت ہماری معاشرت کو تباہ کرسکتی ہے، ٹروتھ جی پی ٹی(TruthGPT) کے نام سے ایک نئی اپیلی کیشن بنانے کا وعدہ کیا ہے جو تعصبات کے خاتمے کے لئے کام کرے گی۔نیوزی لینڈ کے ایک ماہر ڈیوڈ روزیڈو حال ہی میں رائٹ ونگ جی پی ٹی نامی ایپ کا تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ ایپ خاندانی اقدار اور اعتدال پسند سوچ کو آگے بڑھاتی ہے۔مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ کے خالق جیفری ہنٹن نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ یہ ایجاد انسانی دماغ کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے گوگل میں اپنی ملازمت سے استعفی دے دیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری معاشرت اور انسانیت کے لئے گہرے خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو جو سہولیات فراہم کی ہیں اس کے بدلے میں خطرات بھی لازمی طور پر موجود ہیں تاہم ان خطرات کو احتیاط اور دانشمندی سے کم کیا جا سکتا ہے اب موبائل فون بہت سارے لوگوں کے لئے گھر بیٹھے کمائی کا ذریعہ ہے وہ آن لائن خریدوفروخت اسی کے ذریعے کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف اگر یہی موبائل غیر محتاط طریقے سے ایسے کاموں کے لئے استعمال ہوں جس سے نہ صرف خود استعمال کرنے والا بلکہ پورے خاندان کو خطرے میں ڈالے تو اس میں قصور اس بے جان آلے کا نہیں بلکہ اس شخص کا ہے جو جان بوجھ کر اسے غلط استعمال کر رہا ہے جدید ٹیکنالوجی کی بھی یہی مثال ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو لامحدود فوائد ہیں اور نقصان اٹھایا جائے تو وہ بھی کم نہیں۔