حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے، چیف جسٹس عمر عطابندیال

نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجازالاحسن تین رکنی خصوصی بینچ کا حصہ تھے،وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کراچی سے وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آج آپ اتنی دور سے پیش ہوئے، جس پر وکیل نے کہاکہ گزشتہ روز کے حالات کے پیش نظر مجھے لگا کہ عدالت پہنچنا مشکل ہوگا۔

وکیل کاکہنا تھا کہ آج کل تو سوشل میڈیا بھی نہیں کہ معلومات مل سکیں،اس موقع پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ دھیان سے بات کریں،عدالت میں جو بات کہیں گے وہ سوشل میڈیا پر گُڈ ٹو سی یو کی طرح سیاق و سباق کے بغیر پیش کی جائے گی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 46ویں سماعت ہے اور بینچ چاہتا ہے اس کیس کو سمیٹا جائے،تحریری مواد دیکھنے کے بعد ضرورت ہوئی تو مزید سماعت کریں گے،اگر فراہم کردہ مواد پر عدالت کسی نتیجہ پر پہنچی تو فریقین کو آگاہ کر دیں گے۔

نیب ترامیم کیس کی آج 46 سماعتیں ہوچکی ہیں، خواجہ حارث نے 26 اور مخدوم علی خان نے 19 سماعتوں پر دلائل دیئے،مقدمہ کو مزید نہیں لٹکانا چاہتے، عدالتی چھٹیوں میں شاید بینچ بیک وقت یہاں دستیاب نہ ہو،نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ نیب ترامیم دیکھ کر بتائیں ان میں غلطی کیا ہے، نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اپنے جواب میں مخدوم علی خان کے اعتراضات کا جواب بھی شامل کیجیے گا،خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں تیسری ترمیم کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے،وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ حکومت نے نیب قانون میں ریفرنسز واپس ہو کر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے پر ترمیم کی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر کیس دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کریں گے،عدالت نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔