اسد میمن سندھ سے ماؤنٹ ایورسٹ سرکرنے والے پہلے کوہ پیما بن گئے

پاکستانی کوہ پیما اسد میمن نے نیپال کے سلسلہ کوہ ہمالیہ میں واقع دنیا کی بلندترین پہاڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزازحاصل کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اسد میمن 15 رکنی ٹیم میں شامل واحد کوہ پیما ہیں جنہوں نے خراب موسم کے باوجود 8 ہزار8سو 49 میٹربلند چوٹی سرکرنے کی۔ اس کامیابی کے بعد وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی سرکرنے والے آٹھویں جبکہ سندھ کے پہلے کوہ پیما بن گئے ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔

عزم اور حوصلےکا مظاہرہ کرنے والے اسد میمن نے ایورسٹ پر پہنچ کر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے قومی پرچم لہرایا ۔

دنیا کی سات بڑی چوٹیوں میں سے چار کو سر کرنے والے اسد کے اس سفرکا آغاز 13 مئی کو ہوا، انہوں نے فیس بک لائیوسیشن میں بتایا کہ ان کے پیچھے ایورسٹ پرچڑھائی کا مرکزی حصہ جسے کنگ فو آئس فال کے نام سے جانا جاتا ہے اور سب میں سے زیادہ تر اموات یہاں رپورٹ کی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ اس کے بعد وہ کیمپ ون پہنچیں گے، جو اس مقام سے 500 میٹر اوپر ہے، پھر کیمپ ٹو اور تھری دونوں 500 میٹر اوپر ہیں، اس کے بعد کیمپ فور ہے جہاں سے چوٹی سرکرنے کا سفرشروع ہوگا جو تقریباً 1000 میٹر اوپر ہے۔“

سطح سمندر سے تقریباً 5000 میٹر بلندی پر موجود اسدمیمن نے بیس کیمپ کے اطراف کی جگہ اور کوہ پیماؤں کے لیے کھانے کی جگہ بھی دکھائی تھی۔

حتمی پیش قدمی سے قبل 15 مئی کواسد میمن نے کیمپ فور سےایک ساتھی کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کی اورچار دن بعد 19 مئی کو چوٹی سرکرنے کا اعزازحاصل کیا۔

چوٹی سے واپسی کے دوران اسد میمن کو خراب موسم کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پھنس گئے ، اس دوران انہیں گھٹنے کی چوٹ اور ہاتھ فریکچرہونے سمیت جھلسنے جیسی چوٹیں آئیں۔ تاہم انہیں بحفاظت واپس لاکرطبی امداد دی گئی۔

امید ہے کہ وہ پاکستان واپسی سے قبل ایک یا دو دن میں صحت یاب ہو جائیں گے۔

فیس بک پر اپنے پیغام میں اسد میمن نے لکھا، ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میں سندھ سے ماؤنٹ ایورسٹ کسرکرنے والا پہلا شخص بن گیا ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس سفر میں میرا ساتھ دیا‘۔

اپنے پیغام میں اسد میمن نے کہا کہ دو ماہ کی غیر آرام دہ نیند، منجمد راتیں، مسلسل سردرد اور سخت ترین دھوپ کے باوجود دنیا کی سب سے اونچی چوٹی سر کرنا قابل فخرہے۔

واضح رہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش میں اب تک چار سو سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔