ڈینگی چیلنج

ڈینگی بخار پھیل رہا ہے‘ اِس حوالے سے پاکستان کی قومی پالیسی کیا ہونی چاہئے‘ وقت ہے کہ اِس سوال کا جواب ’صحت عامہ کے شعبے (ہیلتھ کیئر سیکٹر)‘ میں کام کرنے والے حکومتی اہلکاروں کو کرنا چاہئے۔ ’ڈینگی‘ وائرل انفیکشن ہے جو مچھروں سے پھیلتا ہے‘ خاص طور پر ایک خاص قسم کے مچھر سے جسے ڈینگی مچھر بھی کہا جاتا ہے۔ اس مرض کی شدت اور وقوع پذیری گزشتہ دو برس سے پاکستان کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ گزشتہ سال ملک میں ڈینگی کے 76 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جو گزشتہ سال کے مقابلے چھالیس فیصد زیادہ ہیں تاہم ڈینگی سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے۔ ڈینگی پھیلنے کی ایک وجہ ستمبر اکتوبر دوہزاردس میں آیا سیلاب ہے‘ جس کا پانی کئی متاثرہ علاقوں میں اب بھی کھڑا ہے اور یہی ڈینگی پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کے لئے سیلابی پانی افزائش نسل کا کام دے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد و بحالی کی سرگرمیوں کے ساتھ اُن امور پر بھی نظر رکھیں جو بیماریاں پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ اب یہ متعلقہ سرکاری اداروں کے حکام پر منحصر ہے کہ وہ بیماری کے تیز تر پھیلاو¿ کو روکنے اور مریضوں کو بروقت ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لئے کیا کچھ اقدامات کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک سے چار کروڑ ’ڈینگی انفیکشن کیسیز‘ رپورٹ ہوتے ہیں‘ پاکستان کےلئے ڈینگی چیلنج سے نمٹنا اِس وجہ سے بھی آسان نہیں کیونکہ وسائل کی کمی ہے تاہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے ڈینگی کے خطرے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے جیسا کہ گھر سے باہر جاتے وقت پوری آستین والی قمیض پہنی جائے‘ پانی کو کھڑا نہ ہونے دیا جائے اور ایسی ادویات کا چھڑکاو¿ کیا جائے جو مہلک مچھروں کی افزائش روکنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ راولپنڈی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ سینٹر ڈینگی سے نمٹنے کے لئے مہم شروع کرے گا لیکن وائرس کی شدت کو دیکھتے ہوئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکام ڈینگی کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کےلئے ضروری اقدامات نہیں کرتے اور نہ ہی اس بات کو پھیلانے کےلئے ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں نتیجتاً ڈینگی کے کیسز اور ایس او ایس کالز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برسرزمین حقائق اور ڈینگی سے متعلق اعداد و شمار کے ساتھ حکومتی اداروں کے پاس برس ہا برس کا تجربہ بھی ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ڈینگی کو روکنا ممکن ہے۔ وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی محکمہ صحت احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور متعلقہ ذیلی محکموں کو مناسب فنڈز جاری کئے جائیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ڈینگی وائرس زیادہ بدتر شکل اختیار نہ کرے‘ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے علاج کےلئے خصوصی انتظامات کے ساتھ علاج کےلئے درکار سہولیات (مفت ادویات) کی فراہمی کا بھی بندوبست ہونا چاہئے جبکہ ڈینگی سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ کرنے کےلئے حفاظتی تدابیر کی تشہیر بھی وسیع پیمانے پر ہونی چاہئے۔ ایسے تمام علاقوں کی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام ہونا چاہئے جو ماضی میں ڈینگی مچھروں کی افزائش گاہ رہے ہیں اور اب بھی خطرہ ہیں۔ حکومت ملک بھر میں نجی طور پر چلائے جانے والے کلینکس کے ساتھ بھی شراکت داری قائم کر سکتی ہے تاکہ ڈینگی کو شکست دی جا سکے۔ اس سے سرکاری ہسپتالوں پر ڈینگی مریضوں کا بوجھ بھی بڑی حد تک کم ہوجائے گا۔