جسمانی سزا

وفاقی دارالحکومت کی حدود میں تمام تعلیمی اداروں بشمول سکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی سے متعلق قانون کے قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے ہیں جن کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’تعلیم کا عمل بچوں کی مار پیٹ سے نہیں بلکہ اُن کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایک سازگار و ہم آہنگ ماحول پر مبنی ہونا چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ تعلیمی اداروں میں مار پیٹ ختم کرنے کےلئے عالمی مہم جاری ہے جس میں 62 ممالک نے بچوں کو دی جانے والی ہر قسم کی جسمانی سزاو¿ں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اِس عالمگیر تحریک کے تحت بچوں کی کسی بھی وجہ سے مار پیٹ کرنے والوں کےلئے قانون میں سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ تاحال پاکستان اُن ممالک کی صف میں شامل ہے جنہوں نے تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر مکمل پابندی تو عائد نہیں کی لیکن ہمارے قومی و صوبائی فیصلہ ساز بچوں کی مارپیٹ کو جائز نہیں سمجھتے اور اِس اصول سے اتفاق کرتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزائیں نہیں دی جانی چاہیئں لیکن بدقسمتی سے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کی وساطت سے ایسے واقعات منظرعام پر آتے ہیں جن میں بچوں کو اُن کی قوت برداشت سے زیادہ اور ہتک آمیز جسمانی سزائیں دی جاتیں ہیں اور اِن کی وجہ سے بچے نہ صرف جسمانی طور پر بُری طرح زخمی ہوتے ہیں بلکہ وہ نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے واقعات بھی ہیں جن میں جسمانی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی اموات ہوئیں۔ لازم و ضروری ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں اور تعلیمی اداروں سے باہر بچوں کو دی جانے والی ہر قسم کی ’جسمانی سزا‘ پر پابندی عائد کی جائے اور ایک نئی تعلیم حکمت عملی اور سوچ وضع کی جائے جس میں بچوں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور پاکستان اُن عالمی معاہدوں کا پاس کرے جو بچوں کے حقوق سے متعلق ہیں اور جن پر پاکستان نے رضامندی سے دستخط کر رکھے ہیں۔اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزائیں دینے پر پابندی کا اطلاق اپنی جگہ اہم ہے تاہم اِس طرح کی پابندی ملک کے دیگر حصوں میں بھی لاگو ہونی چاہئے اور امر واقعہ یہ ہے کہ بچوں کو دی جانے والی سزاو¿ں کو روکنے کےلئے جس قدر بھی سخت قوانین و قواعد مرتب کئے جائیں وہ نرم ہی رہیں گے اِسی قسم کا ایک قانون خیبرپختونخوا میں بھی منظور ہو چکا ہے جبکہ سکول بیگ کا وزن مقرر کرنے کا قانون تک خیبرپختونخوا کے مجموعہ¿ قوانین کی زینت ہے لیکن اِس پر خاطرخواہ عملدرآمد نہیں ہو رہا‘ کیا ضرورت ایک ایسے نئے قانون کی ہے جس میں پہلے سے بنے قوانین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جائے؟بچوں پر جسمانی تشدد اور اُنہیں سزائیں دینے کا عمل ’اساتذہ کی تربیت‘ اور ’ذہن سازی‘ سے ممکن ہے۔ جبکہ بچوں کو نظم و ضبط سکھاتے ہوئے اُن کی ذہنی تربیت ضروری ہے تاکہ وہ پڑھنا لکھنا سیکھ سکیں اور تعلیمی ادارے اُن کے لئے ڈراﺅنا خواب نہ ہوں۔ بدقسمتی سے‘ صرف تعلیمی ادارے ہی نہیں بلکہ گھروں میں بھی بچوں پر تشدد ہوتا ہے۔ اُنہیں نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے سزائیں دی جاتی ہیں جو مناسب طریقہ نہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر ’بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کی توثیق کئے ہوئے ہے اور اِس توثیق کو تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بچوں کے حقوق سے متعلق زمینی صورتحال جوں کی توں ناقابل یقین اور افسوسناک ہے‘وقت ہے کہ سماجی سطح پر بالعموم فکروعمل کا انداز بدلا جائے‘بچوں کو سزا سے نہیں بلکہ دلیل اور منطق سے سمجھایا جائے‘سب سے پہلے چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ پر عمل درآمد ہونا چاہئے جو قانون کی کتابوں میں تو موجود ہے لیکن اِس کا خاطرخواہ نفاذ نہیں ہو رہا اور چائلڈ پروٹیکشن بیوروز جو صوبائی سطح پر موجود ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں خاطرخواہ خوش اسلوبی سے سرانجام نہیں دے رہے‘اگر بچوں کو مار پیٹ کے ذریعے تعلیم دی گئی تو وہ ذہنی طور پر باغی ہو جائیں گے اور سکول و کتاب کا رخ کرنے سے ہچکچائیں گے‘ امید ہے کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے قوانین کے نفاذ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں کو متعلقہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں جسمانی سزاو¿ں سے محفوظ رکھا جائےگا اور جسمانی سزاو¿ں کا ”مکمل خاتمہ“ کرنے کےلئے عملاً اقدامات کئے جائیں گے۔