جی ایم فوڈ، کیا خوراک کے مسئلے کا حل ہے؟

اس وقت اگر ایک طرف منصوعی ذہانت کے چرچے ہیں اور اس موضوع پر گرما گرم بحث جاری ہے کہ کیا یہ انسانیت کے فائدے کی چیز ہے یا نقصان کی۔تو دوسری طرف جی ایم فوڈ یعنی جینیاتی طور پر تحریف شدہ خوراک بدستور متنازعہ ہے۔ مگر خوراک کی مستحکم پیداوار کیسے ممکن ہو گی؟دنیا کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے تناظر میں جینیاتی طور پر تحریف اور ترمیم شدہ خوراک متنازعہ ہونے کے باوجود ایک اہم حل کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پائیدار زرعی پیداوار جی ایم فوڈز کے علاوہ ممکن نہیں؟جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خوراک متنازعہ ہے اور ایسی خوراک کی تیاری ماحول کے لئے مضر ہے۔ آن لائن سائنسی مقالے "Our World in Data" یا ہماری دنیا ڈیٹا میں کے مطابق زراعت کا شعبہ مجموعی طور پر کاربن گیسوں کے اخراج کے ایک چوتھائی کا ذمہ دار اور دنیا سے حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کی ایک اہم وجہ بھی۔ اقوام متحدہ کی پیش گوئی کے مطابق 2057 تک دنیا کی آبادی دس ارب ہو جائے گی۔ ایسے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم خوراک کی پیداوار میں پچاس فیصد اضافہ کیسے کر سکتے ہیں اور وہ بھی اس دنیا کو ماحولیاتی تباہی اور حیاتی تنوع کی بربادی کی وجہ بنے بغیر۔خوراک سے جڑی اقتصادیات کے شعبے کے ماہر اور بون یونیورسٹی کے مرکز برائے ترقیاتی تحقیق کے ڈائریکٹر ماٹِن کے مطابق ہم یہی سمجھے ہیں کہ زراعت کے لیے مزید علاقے کا استعمال ماحولیاتی تبدیلیوں اور حیاتیاتی تنوع کے اعتبار سے غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ماحول کے تحفظ کے لئے کم زمین پر خوراک اُگانا ہو گی۔ ڈاکٹر ماٹن بتاتے ہیں کہہمارے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے دو مختلف راستے ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہمیں خوراک کے استعمال کے حوالے سے پائیدار راستہ اپنانا ہو گا۔ اس کا مطلب کم ضیاع، کم گوشت وغیر ہے۔ دوسرے طبقے کا خیال بہتر ٹیکنالوجی اور ماحول دوست زراعت کے ذریعے خوراک کی پیدوار ہے۔ اس معاملے میں دونوں راستوں پر ایک ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں خوراک کی پیداوار خصوصا انسانوں کے لئے غذائی اصراف کو کم کرنا ہو گا۔بہت سے دیگر ماہرین یہی سمجھتے ہیں کہ جین ٹیکنالوجی پائیدار غذائی نظام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ہر کوئی کم زمین سے زیادہ خوراک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی کیمیائی کیڑے مار ادویات اور کھاد کا کم استعمال چاہتا ہے۔ اگر آپ جین ٹیکنالوجی کا استعمال جانتے ہیں کہ تو ایسے پودے تخلیق کیے جا سکتے ہیں جو زیادہ شدید موسمی حالات برداشت کر سکیں اور زیادہ مزاحم ہوں۔ یہ اچھی شے ہے۔جینیاتی طور پر تحریف شدہ اشیا ءاصل میں وہ اجناس ہیں، جن کے ڈی این اے خصوصیات کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے زیادہ فصلیں حاصل کی جا سکتی ہیں اور یہ کیڑوں، خشک سالی اور درکار اضافی غذائیت کے اعتبار سے بھی زیادہ مزاحمت کے حامل ہوتی ہیں۔ ان فصلوں کو یوں بھی تیار کیا جا سکتا ہے کہ یہ کاربن گیسوں کا کم اخراج کریں اور یوں خوراک کی ایک پائیدار پیداوار شروع کی جا سکتی ہے۔ جینیاتی تبدیلی کی حامل یہ فصلیں عام فصلوں کے مقابلے میں دس فیصد کم زمین کا استعمال کرتی ہیں۔ تاہم بہت سے افراد ان سے متعلق خدشات کااظہار کرتے ہیں کہ یہ صحت کے لئے مفید ہے یا نقصان دہ؟۔