گرمی کی لہر 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو صف اوّل میں کھڑے ہیں اور یہ کہ پاکستان کو ’گلوبل وارمنگ‘ سے ایک غیر متناسب اور سنگین نتائج کا سامنا ہے‘ پاکستان اگرچہ عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث نہیں اور ہمارے ہاں ماحول دشمن گیسوں کا اخراج بھی کم ہے لیکن اِس کے باوجود موسمیاتی اثرات کا ظہور زیادہ بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ”ہنگامی حالات پاکستان میں شدید گرمی اور صحت کا حق“ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ’گرمی کی لہر کے اَثرات کو بطور خاص اُجاگر کیا گیا ہے ایک ایسا ملک جہاں انتہائی غربت پھیلی ہوئی ہو‘ جہاں غذائی قلت بھی ہو تو ایسی صورتحال میں کم آمدنی والے طبقات گرمی کی لہر سے بچنے کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ مذکورہ رپورٹ جیکب آباد اور لاہور سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذاتی انٹرویوز پر مبنی ہے‘ جیکب آباد دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ جن لوگوں سے انٹرویو لیا گیا وہ بنیادی طور پر کم آمدنی والے کام کاج کرتے تھے اور انہیں نہ تو ملازمتی تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی اُن کے حالات اور اُوقات کار مثالی تھے۔ ایسے ملازمین ہفتہ وار چھٹی نہیں کرتے اور وہ کسی ایک بھی ایسے دن کا تصور نہیں کرسکتے جب وہ کام کاج نہ کریں‘ گرمی کی لہر کا مقابلہ کرنےوالی اِس لیبر فورس کی اکثریت کے ملازمتی و سماجی حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اِس بارے میں بھی بہت کم کوششیں اور شعور پایا جاتا ہے‘ایمنسٹی انٹرنیشل کی مذکورہ رپورٹ میں ہیٹ ویو اور انتہائی درجہ حرارت کے عام طور پر خواتین اور غریبوں جیسے کمزور طبقات پر پڑنےوالے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ہیٹ ویو کے بارے میں صحت عامہ کی کوششیں‘ ردعمل اور اصلاحات کرنےوالے اکثر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ لوگوں کو بجلی‘ پنکھے‘ پانی اور ائرکنڈیشنرز تک رسائی حاصل ہے 
جبکہ زمینی حقیقت اِسکے برخلاف ہیں اور زیادہ تر غریبوں کے پاس ’ہیٹ ویو‘ سے بچنے یا اِس سے متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہونے کے وسائل نہیں ہوتے اور یہ کام بھی بنیادی طور پر حکومتی اداروں کا ہے کہ وہ لاکھوں غریب لوگوں کو گرمی کی لہر سے مناسب تحفظ فراہم کرے جبکہ متوسط طبقہ بھی مشکل سے ائرکنڈیشن خرید سکتا ہے اور اپنے بجلی کے بلوں کو پورا کرنے کےلئے جدوجہد کر رہا ہے اگرچہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’ہیٹ ایکشن پلان‘ پیش کرتے وقت ملک کے انتہائی پسماندہ افراد کو ترجیح دے لیکن کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اس مسئلے سے نمٹنے کےلئے جس قدر بڑے پیمانے پر مالی وسائل کی ضرورت ہے وہ بنا دوست ممالک کی امداد کے حاصل نہیں ہو سکتے‘ جب ہیٹ ویو کی بات آتی ہے تو پاکستان جیسے ممالک اِس سے متاثر تو ہیں لیکن عالمی سطح پر ہیٹ ویو کےلئے ذمہ دار نہیں ہیں‘ دنیا کے سرمایہ دار ممالک کی اکثریت ایسی مضر ماحول گیسوں کا اخراج کرتی ہے جس سے ’ہیٹ ویو‘ میں اضافہ ہوتا ہے‘ سرمایہ دار ممالک کی صنعتی ترقی کی قیمت جنوب ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان ادا کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایمنسٹی کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر نے ماحول دوشمن ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے اور موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے پاکستان جیسے ممالک کی مالی امداد اور ترقی یافتہ معیشتوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی 
تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے دیئے گئے قرضوں کی میعاد بڑھا دینی چاہئے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اب کثرت کے ساتھ رونما ہوں گے۔ گزشتہ برس پاکستان میں موسم بہار شدید گرمی کی لہر کے ساتھ دیکھا گیا، جہاں جیک آباد میں گزشتہ برس مئی میں درجہ حرارت اکیاون درجے سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔پاکستان میں گزشتہ برس شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آ گیا تھا، جس کی وجہ سے کروڑوں انسان، مویشی اور زرعی زمینیں متاثر ہوئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کم آمدن والے افراد زدید گرمی کے دنوں میں بھی کھلے آسمان تلے کام پر مجبور ہیں اور یہی افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے تحفظ کی سب سے کم استطاعت رکھتے ہیں۔ایمسنٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں چالیس ملین سے زائد افراد بجلی سے محروم ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان گرین ہاس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بہت پیچھے ہے، تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی فہرست میں یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔اگر چہ اس حوالے سے عالمی برادری پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کرے تاہم ساتھ ہی ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت بھی کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں تو اولین فرصت میں درختوں کو زیادہ سے زیادہ اگانا ہوگا تاکہ ایک طرف اس سے موسمیاتی تبدیلی کے عمل کو سست بنایا جاسکتا ہے تو ساتھ ہی سیلابوں کی صورت میں درخت تباہی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر دریاﺅں کے کناروں پرکٹاﺅ کو روکنے کیلئے درختوں کی بڑی تعداد میں موجودگی ضروری ہے جسے وجود میںلانا ناممکن ہر گزنہیں۔اس حوالے سے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو صحت دوست بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔