توہین قرآن ،مسلم ممالک کیا کریں؟

یورپ میں روز افزوں سفید فام نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے باعث ایک دفعہ پھر سویڈن میں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا افسوس ناک، قابلِ نفرت اور ناقابل قبول واقعہ پیش آیا ہے۔ سوال یہ ہے ایسے واقعات روکنے کےلئے مسلم ممالک کیا کرسکتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سویڈن کے خلاف سات جولائی کو یوم تقدیس قرآن او یوم احتجاج منایا اور چھ جولائی کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جس میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف متفقہ مذمتی قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ واقعے میں ملوث شخص کے خلاف قانونی کاروائی کرے، یہ یقین دہانی کروائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے، اسلامو فوبیا کے واقعات کو بھی دیگر مذاہب کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں جیسا ڈیل کیا جائے اور اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے کےلئے موثر پالیسی بنائی جائے۔ادھر مسلم ممالک کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد سویڈن حکومت نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی بھی طرح سویڈن حکومت کا موقف نہیں ہے۔ سویڈن نے قرآن کریم اور دیگر مقدس صحیفوں کی بے حرمتی کو جرم قرار دینے پر غور شروع کر دیا کیوں کہ سویڈن کے وزیرِ انصاف گونار اسٹرومر کے بقول قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے حالیہ واقعے نے سوئیڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے سویڈن میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 2016 میں مسلمانوں کی تعداد آٹھ لاکھ تھی جو 2050 میں تین گنا بڑھ کر 25 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ سویڈن میں قرآن کریم کی بےحرمتی کے عمل کو مسترد کرتے ہیں، یہ واقعہ جارحانہ، بے عزتی پر مبنی اشتعال انگیز عمل ہے۔اسلام اور مغرب کی کشمکش کا بنیادی مسئلہ اس وقت یہی نظر آتا ہے کہ مغرب اس کام کو اظہار رائے کی آزادی سمجھتا ہے کہ ہر شخص کو کسی انسان، گروپ یا عقیدے کا مذاق اڑانے کا حق حاصل ہے جب کہ اسلام دوسروں کے احساسات، عقائد اور شعائر کے احترام کا درس دیتا ہے۔قرآن کو نذر آتش کرنا اور اس کی توہین تو خیر بہت بہت بڑا جرم ہے کسی دوسرے مذہبی بلکہ عام کتاب سے بھی ایسا سلوک زیبا نہیں اور ہر ایک کے جذبات، احساسات اور عقائد کا احترام کیا جانا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ ان جیسے واقعات کا سدباب کیسے کیا جائے۔ اس سلسلے میں کئی راستے تجویز کیے گئے ہیں، سب سے موثر راستہ معاشی بائیکاٹ کا ہے کیونکہ آج کل معاشی تعلقات پر ہی ممالک کے درمیان تعلقات استوار رہتے ہیں۔اگر مسلم ممالک سویڈن پر پابندیاں لگا دیں، اور سویڈن کاساتھ دینے والے ممالک سے بھی معاشی تعلقات منقطع کرلیں تو یقینا مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی کو وہ نظر انداز نہیں کر سکیںگے۔او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس میں تقریبا ًڈیڑھ ارب مسلم آبادی اور ستاون رکن ممالک، جو دنیا کے ستر فیصد توانائی ذرائع اور چالیس فیصد خام مال کے مالک ہیں، شامل ہیں۔ اس لیے اب او آئی سی د و ٹوک بات کرے اور پہلے یورپی یونین سے بات چیت کے ذریعے سمجھادے اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو پھر سب مسلم ممالک کا اس عمل کی پشت پناہی کرنے والی ریاست کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کریں۔اس کے ساتھ مسلم ممالک مشترکہ طور پر جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلائیں اور مذہبی منافرت اور اسلامو فوبیا کی مستقل روک تھام کےلئے ضروری قانون سازی کروائیں۔ ان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اس میں انسانی حقوق کی اس بدترین خلاف ورزی پر پوری تیاری کے ساتھ موقف پیش اور قرارداد پاس کروائی جائے۔