نائیجر میں فوجی بغاوت کے اثرات

مغربی افریقہ کے ملک نائیجر میں ایک فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔ 26 جولائی کو مسلم ملک نائیجر میں فوج نے منتخب حکومت برطرف کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ نئے حکمرانوں نے آئین اور آئینی ادارے معطل کر دئیے ہیں اور کرفیو لگا دیا ہے۔امریکہ، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے اس بغاوت کی مذمت کی ہے۔ یورپی یونین اور فرانس نے نائیجر کی مالی امداد روک دی ہے اور امریکہ نے بھی ایسا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ یورپی یونین نے ساتھ ہی سلامتی پر تعاون بھی معطل کردی ہے۔افریقی یونین نے بغاوت کرنے والے فوجیوں کو کہا ہے کہ وہ پندرہ دن میں واپس بیرکوں میں چلے جائیں جب کہ مغربی افریقی ممالک کی معاشی برادری نامی تنظیم ایکوواس نے نائیجر پر پابندیاں عائد کردی ہیں اور دھمکی دی ہے کہ اگر فوجی حکمرانوں نے ایک ہفتے میں صدر باذوم کی برطرف حکومت بحال اور انہیں رہا نہ کیا تو تنظیم اس سلسلے میں طاقت کا استعمال بھی کرسکتی ہے۔تنظیم نے اپنا ایک وفد نائجیریا کے سابق فوجی سربراہ عبدالسلام ابوبکر کی قیادت میں نائیجر کی دارالحکومت نیامی بھیج دیا ہے جو وہاں حکومت پر قبضہ کرنے والے فوجی افسروں سے مذاکرات کرےگا۔ اس سے پہلے بھی چاڈ اور بنین کے رہنما ان سے مذاکرات کرنے گئے تھے۔واضح رہے نائیجر کے صدارتی محافظین کے سربراہ جنرل عبد الرحمن نے 26 جنوری کو صدر باذوم کو گرفتار کرکے اس کی حکومت ختم کرنے اور خود کو سربراہ حکومت مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ باسٹھ سالہ جنرل نے اقتدار پر قبضہ کے بعد ریاستی ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ضروری تھا تاکہ ملک کے مرحلہ وار اور یقینی زوال کا راستہ روکا جاسکے۔ایکو واس کے سیاسی امور، امن اور سلامتی کے کمشنر عبد الفتح موسی نے کہا ہے کہ تنظیم کی جانب سے نائیجر پر عسکری حملہ آخری چار کار ہے لیکن ہمیں اس کےلئے بھی تیار ہونا چاہئے۔ یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ جو گرجتے ہیں وہ برس بھی سکتے ہیں۔ادھر نائیجر کی مسلح افواج کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کےلئے پرعزم ہیں۔ایکو واس مغربی افریقہ میں جمہوریت برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے کیوں کہ تنظیم میں شامل کئی ممالک مالے‘ برکینہ فاسو اور گیانا میں پچھلے دو سالوں میں فوجی آمریتیں قائم ہوئی ہیں جب کہ گیانا بساو میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش ہوگئی۔ نائیجر میں بھی 1974 میں پہلی فوجی آمریت قائم ہوئی اور پھر 1996, 1999, 2010 اور اب 2023 میں پھر بغاوت ہوئی ہے ۔ مالے اور برکینہ فاسو کے فوجی حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ نائیجر میں کسی بھی مسلح مداخلت کو اپنے خلاف بھی اعلان جنگ سمجھیں گے۔ گیانا کے فوجی حکمرانوں نے بھی نائیجر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ایکو واس نے نائیجر کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے کئی پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں نئی حکومت کے ارکان پر مالی پابندیاں اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کی سرحدوں کی بندش اور ہر قسم کی تجارتی اور مالیاتی لین دین پر مکمل پابندی شامل ہیں۔ پڑوسی ملک نائجیریا نے نائیجر کو بجلی کی فراہمی بھی روک دی ہے۔ یاد رہے نائیجر اپنی ضرورت کی ستر فیصد سے زیادہ بجلی نائجیریا سے درآمد کرتا ہے۔یاد رہے نائیجر دنیا کے انتہائی غریب اور پسماندہ ممالک میں سے ہے ۔جو اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے اعشاریہ پر اکثر سب سے آخر میں آتا ہے۔ یورپی یونین نے نائیجر میں 2021-2024 میں حکومتی نظم ونسق، تعلیم اور دیرپا ترقی کےلئے 554 ملین ڈالر مختص کیے ہوئے ہیں۔فرانس نے بھی 2022 میں نائیجر کو ترقیاتی امداد میں 130 ملین ڈالر دئیے تھے اور اس برس انہیں بڑھانے کا خیال تھا۔ تاہم نائیجر میں فوجی آمریت کے بعد ان دونوں اور جرمنی نے بھی مالی امداد معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔امریکہ نے بھی کہا ہے کہ نائیجر کے ساتھ ان کی مستقل معاشی اور فوجی امداد کا انحصار وہاں جمہوریت کی بقا اور بحالی پرہے۔امریکہ، فرانس, جرمنی اور اٹلی وغیرہ کے فوجی دستے نائیجر میں باغیوں کے خلاف مہم اور نائیجر کی افواج کو تربیت دینے کےلئے موجود ہیں جو مسلح گروہوں کےخلاف لڑائی میں مدد فراہم کررہے ہیں ۔اگرچہ مغربی ممالک اپنے سول افراد کو نائیجر سے نکالنے میں لگے ہوئے ہیں تاہم ابھی کسی ملک نے اپنے فوجی دستوں کو نکالنے کا اعلان نہیں کیا۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مغربی ممالک نائیجر میں جمہوریت بحال کرنے کے لیے فوجی مداخلت کریں کیوں کہ اٹلی کے وزیر خارجہ انٹونیو تاجانی کے بقول اسے نئی نو آبادیت سمجھا جائے گا۔نائیجر خطے میں مسلح عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں مغرب کا قریبی اتحادی ہے اور مغربی ممالک کی اکثریت نے یہاں فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے کیوں کہ انہیں خدشہ ہے اس سے خطے میں انتہا پسند عسکریت پسند گروہوں کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچے گا اور انہیں مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔مغربی ممالک‘جن کے نائیجر میں فوجی بیس اور ہزاروں افواج موجود ہیں، نہیں چاہیں گے کہ نائجر کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات بالکل منقطع کردیں کیون یہ ان کے مفادات کےلئے نقصان دہ ہوگا۔ وہ یقینا انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنائیں گے ‘ ادھر نائیجر کے نئے حکمرانوں نے کل اعلان کیا ہے کہ وہ الجیریا، برکینا فاسو، چاڈ، مالے اور لیبیا کے ساتھ پچھلے ہفتے سے بند اپنی زمینی اور فضائی سرحدیں کھول رہے ہیں۔ تاہم یہ سرحدیں دورافتادہ صحرائی علاقوں میں واقع ہیں جب کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ نائیجر کی بڑی تجارتی گزرگاہ ایکو واس کی پابندیوں کی وجہ سے فی الحال بند ہے۔نائیجر کی معزول حکومت کے صدر نے سابقہ ٹویٹر اور اب ایکس پر اعلان کیا ہے کہ وہ اور انکا خاندان محفوظ ہے اور اگر بغاوت کرنےوالے صدارتی محافظیں باز نہیں آئے تو ملکی فوج ان پر جلد حملہ کردے گی۔ تاہم نائیجر افواج کے سربراہ عبد الصدیق عیسی نے حکومت معزول کرنے والے فوجیوں کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے ایسا کرنا ضروری تھا تاکہ مختلف ریاستی افواج میں شدید تصادم سے بچا جاسکے‘ مالی اور برکینہ فاسو کی فوجی حکمرانوں کی جانب سے نائیجر میں فوجی مداخلت کو اپنے خلاف بھی اعلان جنگ سمجھنے کے اعلان کے بعد خدشہ ہے کہ ایکوواس کی مسلح مداخلت سے خطہ میں جنگ بھڑک اٹھے گی۔