کرکٹ : دوستی دشمنی اُور کھیل

فیصلہ ہو گیا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت میں ہونے والے عالمی مقابلوں (آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ) میں شرکت کرے گی جس کے بعد قومی ٹیم کی شرکت سے متعلق غیر یقینی صورتحال ختم ہوگئی ہے۔ دنیائے کرکٹ میں بہترین کھیل پیش کرنے اور روایتی حریف ہونے کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ دوطرفہ تعلقات پر منحصر رہتا ہے جو کسی بھی دور میں مثالی نہیں رہے اور دیگر بہت سے امور کی طرح اِس سے کھیل بھی متاثر ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ عالمی مقابلوں کے تحت دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے آپسی مقابلے اِس قدر اہم ہیں کہ اِن کی منظوری دونوں ممالک کے حکمرانوں نے دی ہے جیسے کرکٹ کوئی کھیل نہ ہو بلکہ اِس کا تعلق ملکی سلامتی اور دفاع سے جڑا ہوا ہو۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی کرکٹ سے متعلق فیصلہ سازی میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کے لئے ’آئی سی سی‘ پہلے ہی رکن ممالک سے رجوع کر چکی ہے لیکن جہاں معاملہ اربوں روپے آمدنی کا ہو‘ وہاں فیصلے صرف تکنیکی پہلوو¿ں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کئے جاتے البتہ پاکستان کی جانب سے یہ بات بار ہا اور مسلسل کہی گئی ہے کہ کھیل کو سیاست کے ساتھ نہیں ملایا جانا چاہئے اور اِسی ایک بنیادی اصول کی وجہ سے پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اپنی قومی ٹیم کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ تمام مقابلوں میں شریک ہو سکے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ فیصلہ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بنائی گئی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا جس کی سربراہی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی تھی اور اِس سلسلے میں کمیٹی کا اجلاس تین اگست کے روز دفتر خارجہ میں ہوا تھا جس میں پاکستان کی شرکت کو ’آئی سی سی‘ کی جانب سے اپنی ٹیم کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے سے منسلک کیا گیا۔ کمیٹی اراکین کی اکثریت قومی ٹیم کو بھارت بھیجنے کے حق میں تھی۔ کمیٹی کے کچھ ارکان نے پاکستان کو نیوٹرل مقام پر اپنے میچز کھیلنے کے لئے ہائبرڈ ماڈل اپنانے کی تجویز بھی دی تاہم اِس تجویز کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی کیونکہ کمیٹی کے زیادہ تر ارکان کا خیال تھا کہ آئی سی سی اس طرح کی تجویز کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) آئی سی سی کو خط لکھ کر ٹیم کی سیکورٹی کی ضمانت طلب کرے گا۔ اس تجویز پر وزیر اعظم شہباز شریف سے تبادلہ خیال کیا گیا‘ جنہوں نے پاکستان کی شمولیت کی باضابطہ منظوری دے دی۔ سیکیورٹی سٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے اِس فیصلے میں شامل کرنے کے بعد قومی ٹیم کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں بھی اِس فیصلے کے درپردہ منطق کی وضاحت کی گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کھیلوں سے متعلق اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کا فیصلہ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کے خلاف اس کی تعمیری اور ذمہ دارانہ سوچ کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ بھارت نے ایشیا کپ کے لئے اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا تھا لیکن پاکستان ایسا نہیں کرے گا تاہم بیان میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سیکورٹی کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان سیکورٹی خدشات سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور بھارتی حکام کو آگاہ کرے گا اور پاکستان کو امید ہے کہ دورہ¿ بھارت کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کی مکمل حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔ کرکٹ ورلڈ کپ اکتوبر اور نومبر کے دوران بھارت کے مختلف شہروں میں کھیلا جانا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ چودہ اکتوبر کو گجرات کے شہر احمد آباد میں ہوگا جہاں دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم ہے اور یہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا آبائی شہر ہے۔بھارت اور پاکستان کرکٹ کے میدان میں روایتی حریف ہیں اور اِن کے درمیان مقابلوں کو صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے کرکٹ شائقین دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ 1947ءمیں برٹش انڈیا کی تقسیم کے دوران پیدا ہونے والے تلخ سفارتی تعلقات اور تنازعات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کے تعلقات تاحال کشیدہ ہیں۔ پاک بھارت جنگوں اور تنازعہ کشمیر نے دونوں ممالک کے درمیان کھیلوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں پہلی بار 1952ءمیں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں‘ جب پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اِس کے بعد سے ٹیسٹ اور بعد میں محدود اوورز کی سیریز کھیلی جاتی رہی ہیں ۔جہاںقومی کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کپ کیلئے بھارت جانے کی بات ہے تو یقینا اس سے کھیلوں کے شائقین کو بہت ہی معیاری اور کانٹے کے میچز دیکھنے کا موقع ملے گا۔ قومی ٹیم کی کارکردگی اس وقت مثالی ہے اور اس میں جو کھلاڑی موجود ہیں وہ ونڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی ٹاپ رینکنگ میں شامل ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی کا شمار اس وقت بہترین باﺅلرز میں ہوتا ہے جنہوںنے حال ہی میں کئی ریکارڈ بنائے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بھار ت میں منعقدہ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کئی نئے ریکارڈ بنائے۔ کرکٹ کے مبصرین اور ماہرین اس وقت قومی ٹیم کو آنے والے ورلڈ کپ میں جیت کے لئے سب سے زیادہ فیورٹ ٹیموںمیں شامل کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آنے والے ورلڈ کپ میں چار ٹیمیں اگر سیمی فائنل میں کھیلتی ہیں تو ان میں انگلینڈ ، آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ پاکستان کی ٹیم کو شمار کیا گیا ہے ۔اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جب قومی ٹیم فائنل اور سیمی فائنل کے مرحلے تک پہنچ جائے تو پھر دنیا کی کوئی ٹیم اس کا راستہ نہیں روک سکتی اور وہ ٹائٹل جیت کر ہی رہتی ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ آنے والے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے کھلاڑی اپنی یادگار پرفامنسز کا سلسلہ کیسے جاری رکھتے ہیں اور اس ٹورنامنٹ کو قوم کیلئے تحفے کے طور پر جیت لیتے ہیں۔