یوم آزادی پر ایٹمی توانائی کمیشن کا قوم کو تحفہ

آج ہم اگر آزاد فضاء میں سانسیں لے رہے ہیں تواس آزادی کے حصول کے لئے ہمارے آبا و اجداد نے بیش بہا قربانیاں  دی ہیں۔ ان قربانیوں کی لرزہ خیز داستانیں اب بھی پرانی نسل کے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اسلئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ توانائی کی ملکی ضروریات  میں روز بروز  اضافہ ہورہاہے۔ اور کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے سستی بجلی کی ضرورت ہو تی ہے۔ اس ملکی ضرورت سے پاکستان  ایٹمی توانائی کمیشن اور ملک کی ترقی کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور ارباب اختیار بخوبی آگاہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستان اور چین کے باہمی تعاون سے نیو کلیر پاور کے جس منصوبے کی بنیاد رکھی گئی ہے اس کی پیداواری صلاحیت 1200 میگاواٹ ہے اور اسے چشمہ نیوکلیئر پاور  پلانٹ یونٹ فائیو کا نام دیا گیا ہے۔ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے سمجھوتے پر بیس جون کو دستخط ہوئے۔۔ اس منصوبے کے ہر پہلو میں کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہمارے دوست ہمسایہ ملک چین کے ساتھ اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 18-2017 میں  لگایا تھا۔ اس وقت سے عالمی کساد بازاری کے حالات میں اس منصوبے کی لاگت میں نہ صرف اضافہ ہو گیا ہوتا بلکہ شرح سو بھی بڑھ گئی ہوتی۔ لیکن ہمارے دوست ملک چین نے نہ صرف اس منصوبے کی لاگت وہی رکھی بلکہ اس میں مزید رعایت بھی فراہم کی۔ جو کہ ان مشکل حالات میں پاکستان کے ساتھ دیرینہ دوستی کی علامت ہے۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ پروگرام کے مطابق وسط مدتی اقدامات کے تحت نیو کلیئر توانائی کی پیداوار کو 2030 تک 8,800 میگا واٹ اور 2050 تک 42,000 میگاواٹ بڑ ھانا ہو گی۔ اس طویل المدت منصوبے کی تکمیل میں یہ نیوکلیئر پاورپلانٹ اہم کردار ادا کریگا‘ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کور و کنا بھی اب وقت کی اہم ضرورت  ہے‘ کاربن کے اخراج کے تدارک کے حوالے سے بھی نیوکلئیر پاور  پلانٹس اپنی اہمیت رکھتے ہیں اور تو وہائی کے یہ ذرائع ماحول دوست بھی ہیں۔ کیونکہ ان سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے۔سستی بجلی ملک کی ترقی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے ہمسایہ ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ وہاں توانائی کے ذرائع نے بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی مصنوعات اور ان کے معیار کو قابل رشک بنا دیا ہے۔ کسی ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے ساتھ اس کی توانائی کی ضروریات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف توانائی کی پیداوار بڑھنے سے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال بہتر ہوتی ہے‘یہ دو طرفہ عمل ہے۔ جہاں آج کل توانائی کے  ذرائع  میں نئی نئی جدتیں آتی جارہی ہے وہاں اس بات کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ممکنہ توانائی کے حصول کے ذرائع ماحول دوست محفوظ اور قابل بھروسہ ہوں‘ ایٹمی توانائی بجلی کے حصول کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان دونوں معیارات پر پورا اترتا ہے اور اس سے کار بن اور ماحولیاتی کیسوں کا اخراج بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ایٹمی بجلی کے پروگرام کی تاریخ 70 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے جب پاکستان انہی توانائی کمیشن نے کراچی کے مقام پر کینوپ کے نام سے 1972 میں کینیڈا کے تعاون سے پہلا  ایٹمی بجلی گھر لگا یا اور یوں اس وقت کی جدید ترین ٹیکنا لوجی کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا‘ پاکستان ان چند ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے بہت پہلے ملکی ترقی کیلئے ایٹمی توانائی کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے پر امن استعمال کو اختیار کیا‘ کم و بیش 50 سال کے عرصے سے پاکستان نے ایٹمی تو انائی کے میدان میں قابل قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ پاکستان کے ایٹمی بجلی گھروں کی کارکردگی کا اعتراف بین الاقوامی ماہرین نے بھی کیا ہے‘ چشمہ کے مقام پر 4 پاور پلانٹس ایٹمی توانائی کمیشن کی کامیابی کی ایک نئی داستان ہیں ان نیو کلیئر پاور پلانٹس سے 1330 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو  مہیاکی جا رہی ہے‘اسی طرح  کے ٹو اور کے تھری کے جدید نیوکلیر پاور پلانٹس سے 2200 میگا واٹ سے بھی زیادہ  بجلی پیدا کی جارہی ہے‘یہ بات قابل ذکر ہے ملک میں لگائے جانیوالے  ایٹمی بجلی گھر پندرہ سے اٹھارہ ماہ تک پیداواری ایندھن کو ذخیرہ کرنے کی سہولت رکھتے ہیں۔  طویل عرصے تک ایندھن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے انہیں مسلسل ایندھن کی کمیابی کا خطرہ نہیں رہتا جیسا کہ دیگر ذرائع میں رہتا ہے‘ ان پاور پلانٹس کی ایک اور خاص بات ان کا  جدید ڈیز ائن ہے جس سے بجلی کی مسلسل پیداوار ممکن ہوتی ہے۔ نیزان  پلانٹس کی ڈیزائن لائف 60 سال ہے جس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے‘ پچھلے 50 سال میں ہم  نہ صرف  ایٹمی توانائی کی پیداوار کا قیمتی تجربہ حاصل کر چکے ہیں بلکہ ایٹمی توانائی کمیشن کے زیر انتظام ایسے ادارے بھی بن چکے ہیں جہاں اس جدید ٹیکنا لوجی کی تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام ہے۔