حسن اخلاق

مشہور مصنف اور اہم حکومتی عہدوںپر فائز رہنے والے قدرت اللہ شہاب کی تحریروں میں ایسی چاشنی ہوتی ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ایک مقام پرلکھتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے بوریوالہ میں ایک ٹیکسٹائل مل قائم کرنے کا ڈول ڈال رکھا تھا ‘باقی بہت سے سرکاری منصوبوں کی طرح اس فیکٹری کی تعمیر میں بھی غیر معمولی تاخیر واقع ہو رہی تھی ‘ مل کی تعمیر پر پی ڈبلیو ڈی کا جو عملہ مامور تھا اس کا مستقل واویلا یہی رہتا تھا کہ رقم ختم ہو گئی ‘مزید فنڈ فوراً فراہم کئے جائیں ایک روز میں وزیر صنعت کے ہمراہ بوریوالہ گیا صورتحال کا معائنہ کرنے پر یہ منکشف ہوا کہ تخمینہ سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے لیکن کام ابھی تک جوں کا توں ادھورا پڑا ہے چند سینئر افسروں کو جمع کرکے وزیر صاحب نے یہ دھمکی دی کہ دو ماہ کے اندر اندر کام ختم نہ ہوا تو ہماری بجائے پولیس ہتھکڑ یاں لےکر آئےگی ۔ یہ دھمکی کارگرثابت ہوئی اور فیکٹری کی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچی ‘ دور اندیشی سے کام لے کر صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس ٹیکسٹائل مل کو چلانے کےلئے مناسب شرائط پر حبیب بینک کے حوالے کر دیا جائے ‘ ورنہ فیکٹری کی کارگزاری بھی محکمانہ سرخ فیتے میں الجھ کر رہ جائے گی ۔ اس سلسلے میں حبیب بینک کے جو نمائندے چند بار مجھے ملنے آئے ‘ان سے میں بہت متاثر ہوا یہ جواں سال خوش لباس اور خوش کلام نمائندے اپنے بینک کی نمائندگی نہایت رکھ رکھاﺅ ‘ خوش اخلاقی ‘ خود داری اور صاف گوئی سے نباتے تھے ‘انکا نام آغا حسن عابدی اور ابن حسن برنی تھا ‘متروکہ صنعتوں کی الاٹمنٹ حاصل کرنے والے جھوٹ ‘ فریب ‘ فراڈ اور حرص کے مارے ہوئے ہجوم سے نپٹ کر جب ان دو حضرات سے ملاقات ہوتی تھی تو اچانک یوں محسوس ہوتا تھا جیسے تازہ ہوا کا جھونکا آ جائے یہ انکے حسن اخلاق کی دلیل ہے کہ اس زمانے سے لےکر آج تک انہوں نے میرے ساتھ انتہائی باخلوص بے لوث ‘ بے ریا اور بے غرض دوستی کا رشتہ نباےاہے آغا حسن عابدی نے بینکاری کی عالمگیر برادری میں جو مقام پیدا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن یہ حیرت ناک کامیابی ان کی خوش اخلاقی ‘ خوش کلامی اور انسان دوستی پر ذرا بھی اثر انداز نہیں ہوئی اپنے جیٹ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر دنیا بھر میں مشین کی طرح کام کرتے ہوئے بھی اگر کہیں ان کا پرانا دوست یا رفیق کار نظر آ جائے تو اس کےساتھ خلوص اورتپاک سے ملنے میں ہمیشہ پہل کرتے ہیں ان کی شدید مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ بسا اوقات وہ ایک ایک ملک میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہر پاتے ‘ لیکن کوئی دوست مل کر گھنٹوں بیٹھا رہے تو نہ تو وہ کسی بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نہ باربار اپنی گھڑی کی جانب نگاہ ڈالتے ہیں“اس منتخب اقتباس کاحاصل مطالعہ حسن اخلاق ہے جس کا مظاہرہ کرنے والوں کو تادیر یاد رکھا جاتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ایک شخصیت کا تذکرہ کیا ہے جو اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود نہ تو کسی پر اپنی اہمیت جتاتی تھی اور نہ ہی یہ تاثر دیتی تھی کہ وہ بہت اہم عہدے پر فائز ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت کم لوگ اس طرز عمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ معاملات میں انکسار سے کام لیں اور لوگوں پر یہ ظاہر ہی نہ کریں کہ وہ کسی عام عہدے پر فائز ہیں یا ان کا کام نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے وہ اپنے مشکل کام کو آسان بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور یہی ان کی بڑائی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔