ڈرامائی سیاست

امریکہ کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلیاں جاری ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پندرہ اگست کو دھوکہ دہی اور انتخابات سے متعلق جرائم کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے‘ جس کا نتیجہ سال دوہزاربیس کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ریاست جارجیا میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ہاتھوں اپنی شکست کو تبدیل کرنے کی مبینہ کوششیں ہیں۔ یہ الزامات ٹرمپ کی مبینہ انتخابی مداخلت کی دو سالہ تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس سال یہ چوتھی مرتبہ ہے جب ٹرمپ کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سابق صدر کو نیویارک‘ فلوریڈا اور واشنگٹن میں الگ الگ لیکن ایک جیسے مقدمات کا سامنا ہے۔ تازہ ترین فرد جرم میں ٹرمپ پر جارجیا کے ریکیٹنگ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ جعل سازی‘ سرکاری عہدیدار کا روپ دھارنے اور جھوٹے بیانات اور دستاویزات جمع کرانے کی کوششوں پر سازش کے متعدد الزامات عائد کئے گئے ہیں۔تازہ ترین الزامات ٹرمپ کو اب تک کے سب سے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ امریکہ میں اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے غیر معمولی پیچیدگیوں کو جنم دیتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کی دوڑ میں ٹرمپ آسانی سے سرفہرست ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ امریکی صدر کا فیصلہ عدالتوں اور ججوں کی جانب سے کیا جائے گا۔ ٹرمپ نے اپنے روایتی جارحانہ انداز میں تازہ ترین فرد جرم کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’جادوگروں کا شکار‘ قرار دیا ہے جس کا مقصد صدر کے عہدے کے لئے ان کی جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ ان مقدمات کے نتائج سے قطع نظر‘ مسلسل قانونی دباو¿ اور منفی میڈیا کوریج کے باوجود ری پبلکن ووٹروں میں ٹرمپ کی پائیدار مقبولیت ان کے دائیں بازو‘ نو رجعتی سیاست کی طاقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ تازہ ترین فرد جرم ٹرمپ کا خاتمہ ہو سکتی ہے لیکن انہوں نے جس سیاست کو مقبول بنایا ہے وہ امریکہ اور مغرب دونوں میں زندہ رہے گی۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ یورپ میں دائیں بازو کی حکومتیں برسراقتدار آ رہی ہیں‘ جو ٹرمپ کی جانب سے تارکین وطن اور اقلیتوں کو بدنام کرنے کی آوازیں ہیں۔ تارکین وطن‘ اقلیتوں اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ لبرل ڈیموکریسی کے عالمگیر برانڈ کو عدالتوں میں بچانا شرمناک ہے اور جمہوریت کے عالمی چیمپئن کے طور پر امریکہ کی اصل حیثیت کو کم کرنا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق صدر کے بہت سے حامی ان کے ساتھ رہیں گے چاہے کوئی ان کے خلاف کتنے ہی قابل اعتماد ثبوت پیش کئے جائیں۔آج کا دور جعلی خبروں کے عروج کا ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کے اثرات مغرب سے باہر بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا میں دائیں بازو اور عوامیت پسند حکومتیں اکثر مخالفین کو بدنام کرنے‘ گمراہ کن یا جھوٹے دعوے کرتی ہیں اور ناقدین کو ہراساں کرنے یا خاموش کرنے کی دھمکیاں دینے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اگرچہ سچائی اور سیاست کبھی بھی ایک ساتھ نہیں چلے لیکن زیادہ تر غیر منظم اور اکثر حقائق سے پاک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دور میں مو¿خر الذکر پہلے سے کہیں زیادہ ناپسندیدہ عمل ہو چکا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ٹرمپ تحریک کی بنیادی وجوہات اُور وسیع تر اَثرات جلد ختم ہونے والے نہیں‘ حقائق اور غلط بیانی پر مشتمل بیانیہ چاہے کسی بھی ملک میں ہو‘ یہ جامع اور جمہوری سیاست کے لئے خوش آئند نہیں ہوتا۔امریکہ کے سابق صدر کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ایک پاپولسٹ لیڈر کی بہترین مثال ہے کہ اس کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسے اپنے مداحوں میں مقبولیت حاصل ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے پارٹی کے اندر ابتدائی مباحثوں میں حصہ لینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اس قدر مقبول ہیں کہ اسے ان مباحثوں کے ذریعے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کو منظرنامے سے ہٹا کر بھی مخالفین کو پوری کامیابی ملنا ممکن نہیں کہ وہ اب بھی اسی طرح خطرہ بنا ہو اہے جس طرح وہ ان مقدمات سے پہلے تھا جو اس کےخلاف چلائے جار ہے ہیں۔