لائن آف کنٹرول

بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جارحیت کا مظاہرہ خطے کے امن کے لئے خطرہ اور پرامن پاکستان کے لئے صبر کا امتحان ثابت ہو رہا ہے‘ جس سے متعلق عالمی برادری کو سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے بھارت دباو¿ ڈالنا چاہئے تاکہ وہ ہر قسم کی بلااشتعال جارحیت سے باز رہے۔ تازہ ترین واقعے میں ایک پاکستانی شہری بھارتی فائرنگ سے جاں بحقہوا ہے اور اِس سلسلے میں دفتر خارجہ نے بھارتی ناظم الامور کو طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ مذکورہ شہید کا تعلق ضلع کوٹلی سے تھا۔ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ایل او سی‘ پر امن و امان برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتیوں کو یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ اس طرح کی جارحیت دوہزارتین کے سیز فائر معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے ’آئی ایس پی آر‘ نے بھی اِس واقعے کی مذمت کی ہے اور بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں پر امن و امان کا خواہاں ہے اور اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ گزشتہ چند برس کے دوران نئی دہلی اس طرح کے حملوں پر ندامت یا معذرت کا اظہار نہیں کر رہا بلکہ وہ پاکستان پر ان حملوں کی شروعات کا الزام لگاتا رہا ہے۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ اس منطق پر سوال اٹھائے بغیر نئی دہلی کے بیانیے کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ سال دوہزارچودہ میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نئی دہلی کی طرف سے اپنایا گیا جارحانہ رویہ کسی بھی طرح سے امن کا ضامن ہے۔ درحقیقت بھارت کی جانب سے تکبر اور جنگ بندی سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایل او سی کے قریب رہنے والے دیہاتیوں کو مسلسل خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں کہ قیام امن اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک بین الاقوامی برادری مداخلت نہیں کرتی اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور معاہدوں کو توڑنے کے لئے بھارت کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی۔ کشمیریوں کو پہلے ہی مصائب کا سامنا ہے اور اِن مصائب کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ کے ہزاروں واقعات پیش آچکے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ واقعات اڑی حملے کے بعدسامنے آئے‘ جب بھارت نے شہری علاقوں پر اندھا دھند فائرنگ کی‘ جسے اس نے نام نہاد ’سرجیکل سٹرائیک‘ کا نام دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کی بڑھتی ہوئی بربریت اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کمزور اور الگ تھلگ کرنے کی اس کی بے رحمانہ کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ بھارت امن کے موڈ میں نہیں۔ پاکستان کے نکتہ نظر سے لائن آف کنٹرول پر امن ضروری ہے کیونکہ بھارت یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا آیا ہے کہ کشمیریوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ کشمیریوں کو اُن کا حق خودارادیت دیا جائے جسے بھارت اقوام متحدہ میں تسلیم بھی کر چکا ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے حوالے سے عالمی برادری کو دوٹوک مو¿قف اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے پر منڈلاتے ہوئے دو ہمسایہ ممالک کے درمیان جنگ کے خطرات ختم کئے جا سکیں۔اس سلسلے میں عالمی برادری پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ ترک کرنے پر مجبور کرے۔