صحرا میںمحل

مشہور براڈکاسٹررضا علی عابدی کا شمار ان سفرنامہ نگاروں اور مصنفین میں ہوتاہے جن کی تحریریں ہر عمر کے افراد میںیکساںمقبول ہیں اور اس کی بڑی وجہ ان کا دلچسپ اسلوب اور اپنی تحریر میں معلومات کے خزانے کو قارئین کیلئے کھولنا ہے ۔ ان کی ایک تحریر سے منتخب اقتباس حاضر ہے جس میںوہ لکھتے ہیں کہ اب میں آپ کو ایک محل کی کہانی سناﺅں گا۔ میں اس جگہ پہنچنا چاہتا تھا جہاں دریائے سندھ بحر عرب میں گرتا ہے ‘ ہماری جیپ جو علاقے کے چھوٹے سے قصبے میر پور ساکرو کی طرف دوڑ رہی تھی راہ میں ایک نہر کو پار کرنے لگی کہ اچانک میری نگاہ ایک بڑے سے بورڈ پر پڑی سڑک کے کنارے لگے ہوئے اس بورڈ پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا ‘قصر ابوظبی‘جیپ تیزی سے آگے نکل گئی میں نے اپنے میزبانوں سے کہاقصر تو محل کو کہتے ہےں وہ بولے ‘جی ہاں اس طرف محل ہے‘ابوظبی کے شیخ نے یہاں اپنی شکارگاہ اور
 اپنامحل بنوایا ہے اگلے ہی لمحے میرے اصرار پر جیپ رکی واپس لوٹی اور نہر کے کنارے کنارے بنی ہوئی اس کچی سڑک پر اتر گئی جو سڑک قصر ابوظبی کو جاتی ہے گرد کے بادل میں وہ نہر‘وہ درخت‘ سب نظر آنے بند ہوگئے کچھ دیگر بعد جیپ رکی گرد کے بادل منڈلاتے منڈلاتے اچانک بیٹھ گئے غبار کا چھٹنا تھا کہ سامنے کی شفاف چمکتی فضا میں دیکھا کہ انڈے جیسی ایک سفید عمارت کھڑی ہے بڑی سی گنبد جیسی چھت‘ اونچے اونچے در اور ستون بڑی بڑی کھڑکیاں‘ بڑے دروازوں تک
 جانے کے لئے بڑے بڑے زینے اور اطراف میں ہری گھاس کے تختے اور پھولوں کے پودے اور ہوا میں جھومتے ‘دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتے ناریل کے درخت‘ ٹھٹھہ کے ضلع میں ابوظبی کا محل دیکھا تو جی نہ مانا اور میں نے آگے بڑھ کر دربان سے اپنا تعارف کرایا وہ ریڈیو سنتا تھا‘ مجھے جانتا تھا محل باقی عملہ بھی نکل آیا اور اگلے ہی لمحے میں اپنے نئے میزبانوں میں گھرا محل کے شاہانہ زینوں پر چڑھ رہا تھا۔ ایک اور مقام پررضا علی عابدی سکردو سے متعلق لکھتے ہیں کہ جرات مند ہوا باز طیارے کوسکردو لے گیا ‘اس روز شہر سکردو یوں لگا جیسے ایک کشادہ پیالے کی تہہ میںکوئی موتی پڑا ہو‘ لداخ کے بعد سکردو آکر یوں لگا جیسے کسی پرانے زمانے کے انسان کواٹھا کر جدید زمانے میں اتار دیا جائے سکردودنیا سے الگ تھلگ او ر کٹا ہوا علاقہ تھا اب نہیں ہے ‘ کراچی کی بندرگاہ سے بار بردار ٹرک چل کرسکردو پہنچ جاتے ہیںاوریہ شاندار سڑک سال کے بارہ مہینے کھلی رہتی ہے ۔ سڑک کے ساتھ زمانے کی زیادہ تر نعمتیں اس علاقے میں پہنچنے لگی ہیں اوریہاں پیداہونےوالی بے مثال خوبانی جو کثرت سے پیداہوتی تھی اور درختوںسے گر کر سڑ جاتی تھی ‘ اب خشک کرکے دنیا بھرمیں پہنچائی جا رہی ہے‘اسی طرح جدید تعلیم بڑے سلیقے سے اس سر زمین پر آ گئی ہے ‘میں کئی لڑکیوں سے ملا جو خوب پڑھ لکھ گئی تھیں اور اعلیٰ تعلیم کیلئے نیچے شہروں میں جانے کے منصوبے بنا رہی تھیں ‘ان سے ان کے استادوں نے کہا کہ تم چلی جاﺅگی تو بلتستان کی لڑکیوں کو کون پڑھائے گا؟ چنانچہ وہ یہیں ٹھہر گئیں اوراب علم کے چراغ گھر گھر روشن ہورہے ہیں۔“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ مصنف کا گہرا مشاہدہ ہے جس کا انہوںنے مہارت کے ساتھ اپنی تحریروںمیں اظہار کیا ہے۔