معلومات کاخزانہ

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کو معلومات دینے اور معلومات حاصل کرنے دونوں شعبوں میںمہارت حاصل تھی۔ وہ جہاں جاتے اس مقام کے بارے میںگمشدہ معلومات تک رسائی حاصل کرتے اور اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو دلچسپ پیرائے میں ان معلومات کو منتقل کرتے۔ زیر نظر اقتباس ان کی اس صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔”میں دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تو گزرے ہوئے ہزاروں برسوں کے منظر بھی میرے ساتھ ساتھ پہنچے دریائے جہلم کے ان ہی کناروں پر جلیا نوالا میں انگریزوں نے سکھوں کی کمر توڑی ‘یہیں مغلوں نے ہندوستان جانے کے لئے جنگیں لڑیں ‘شیر شاہ نے معرکہ آرائی کی ‘محمود غزنوی نے لڑائی کی اور جہلم کے یہی ساحل تھے جہاں مجھ سے سوا دو ہزار سال پہلے سکندر اعظم پہنچا تھا میں تلاش کے معاملے میں خوش نصیب نکلا مجھے قدیم کھنڈروں کی نہےں‘قدیم لوگوں کی تلاش تھی کسی نے کہا تھا کہ جہلم جارہے ہو تو ضعیف شاعر جو گی جہلمی سے ضرور ملنا وہ پرانے وقتوں کی آخری نشانی ہےں ایسے لوگ پھر نہےں ملیں گے شہر والوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اندر کہےں پر پیچ اور تنگ گلیوں میں رہتے ہےں ایک نوجوان نے اپنی موٹر سائیکل پر مجھے وہاں پہنچانے کی پیش کش کی میں حیران تھا کہ نئے زمانے کی موٹر سائیکل پرانی گلیوں میں کیسے جائے گی مگر میں اس سے بھی زیادہ حیران ہوا یہ دیکھ کر قدیم جہلم کی ساری گلیاں پختہ تھےں قرینے سے جمی ہوئی اینٹیں‘سلیقے سے بنی ہوئی نالیاں اس شہر کو جس نے بھی بسایا بڑے چاﺅ سے بسایا ہوگا۔اینٹ بھر اونچی دہلیز‘ پرانے تختوں کا دروازہ اور اس میں جھولتی ہوئی کنڈی اندروہی پرانے مکانوں جیسا دالان‘ویسے ہی برآمدے جن میں ویسے ہی تنگ اور تاریک کمرے اور ذرا الگ وہ بیٹھک جس کے اندر سب کچھ قدیم تھا البتہ نئے زمانے کو اپنا قدم رکھنے کی جگہ مل گئی تھی جس کے بعد جلد ہی خود زمانہ بھی اندر چلاآئیگا۔اور وہ تھا ٹیلیویژن‘جوگی جہلمی کا سارا وجود اسی دریا کے کنارے ‘اسی کے ٹھنڈے پانی سے سیراب ہوا ہوگا کہ پانی کی یہ ساری خوبیاں ان میں سرایت کرگئی تھےں ان کی بوڑھی آنکھوں نے سکندر اور پورس کو نہ سہی ‘کتنی ہی یورشوں اور کتنی ہی پسپائیوں کو دیکھا ہوگا میری فرمائش پر اس شام وہ اپنی ایک پنجابی نظم سنا رہے تھے چونکہ تذکرہ اس انجام کا تھا جو میرا تمہارا سب کا مقدر ہے اس لئے ہر مصرعہ صاف سمجھ میں آرہا تھاجہلم والے اپنے علاقے کو سنگلاخ کہتے ہےںمگر شاید وہ خود بھی نہےں جانتے کہ درد منددلوںکا علاقہ یہیں سے لگتا ہے امداد ہمدانی ‘مشین محلہ نمبر دو کے ایک پرانے مکان میں رہتے ہےں لیکن ان کے ہاتھوں نے اس شہرمیں شعروادب کی جو عمارت بنائی ہے وہ بالکل نئی ہے یہ بھی ہوا ہے کہ ان کے چھوٹے سے چائے خانے میں ادب کی بڑی بڑی محفلیں سجی ہےں مگر یوں بھی ہوا ہے کہ ان کے دل کے نہاں خانے میں مایوسیاں اپنی بزم سجا بیٹھیں ‘نیلی سڑک کے شہر جہلم میں نثر اور نظم کا کیا حال ہوا؟ میں نے امداد ہمدانی سے یہی سوال کیا انہوں نے کہا‘ میں نے 50ءجہلم میں ادبی انجمنوں کی بنیاد رکھی بزم داغ‘ شاخ ادب‘ حلقہ ارباب غالب‘ بزم تخلیق‘اور ایسا ہی ہے کہ جیسا لاہور میں پاک ٹی ہاﺅس ہے‘جہلم میں ہمدانی ٹی ہاﺅس کے نام سے مشہور ہے جہاں پہ نئے لکھنے والے ‘پرانے استاد قسم کے لوگ اور شعراء بھی یہاں آتے رہتے ہےں اور ادب کی خدمت کرتے رہتے ہےں اور میں یہ فخر سے کہتا ہوں کہ جہلم کی سنگلاخ زمین میںمیں نے شعراگائے ہےں اور میں کبھی کبھاریہ سوچتا ہوں کہ ادب کے لئے میں نے جو محنت کی اور خدمت کی اس کا مجھے آج تک ثمر نہےں ملا۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ ان لوگوں کی قدر کرنا ہے جو ایسے وقت کی نمائندگی کرتے ہیں جس پر گرد پڑتی جار ہی ہے اور لوگ اسے بھولتے جار ہے ہیں۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ چلتی پھرتی تاریخ کی صورت ان شخصیات کی اہمیت ہے جو اپنے اندر معلومات کا خزانہ رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کاکھوج لگانا اور ان سے فیض یاب ہونا بھی اپنی جگہ ایک الگ فن ہے ۔کون سی معلومات کس سے ملیں گی اور ایسے لوگوں سے کہاں ملاقات ہو سکتی ہیں جو کسی مخصوص مقام یا علاقے کے حوالے سے معتبر معلومات رکھتے ہوں اہم مرحلہ ہوتا ہے۔