بجلی کے بل کیسے کم ہو سکتے ہیں

 بجلی کی قیمت بنیادی طور پر دو چیزوں سے طے ہوتی ہے۔پہلی چیز ایندھن کی قیمت ہے کیونکہ ملک میں بجلی بنانے کے لئے بیرون ملک سے فرنس آئل‘ڈیزل‘کوئلہ یا دیگر درآمدی ایندھن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاﺅہے۔اب ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کرتی ہے۔بجلی کی قیمت کا تعین کرنے والے دونوں عوامل (Factors) یعنی درآمدی ایندھن اور ڈالر کی قیمت،حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں۔اس صورتحال میں توانائی کے متبادل ذرائع عوام کو ریلیف دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کے فروغ کی طرف سفر ابھی شروع ہوا ہے‘سابق وزیراعظم شہبازشریف کی مخلوط حکومت میں شمسی توانائی سے 10 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے منصوبے کا آغاز ہوا تھا جس پر عمل درآمد ابھی جاری ہے۔اس کے نتائج آنے میں وقت لگے گا۔اسی طرح ایک پہلو نجی بجلی پیداکرنے والے کارخانوں (آئی پی پیز) کو ادائیگیوں کا بھی ہے۔اس میں بجلی کی پیداوار سے قطع نظر متعین ادائیگیوںکا بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے‘یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہوتی ہیں ۔ایک اور اہم مسئلہ بجلی کی چوری کی صورت میں درپیش
 ہے جسے لائن لاسز کی ایک نہ سمجھ میں آنے والی اصطلاح میں چھپایا جاتا ہے لیکن سادہ الفاظ میں یہ بجلی کی چوری ہے جس کی سزا بجلی صارفین کو بھگتنا پڑتی ہے۔لائن لاسز کی تعریف میں آنے والے صارفین وہ ہیں جو بجلی کا بل سرے سے ادا ہی نہیں کرتے یا تاخیر سے بل بھرتے ہیں یا پھر اقساط میں بل جمع کراتے ہیں۔اس تعریف میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کنڈے یا دیگر ہتھکنڈوں سے بجلی چوری کرتے ہیں‘اور اس کا خمیازہ ان صارفین کو ادا کرنا پڑتا ہے جو باقاعدگی سے بجلی کی ماہانہ بنیادوں پر قیمت ادا کرتے ہیں۔ان عوامل کی وجہ سے بجلی تیار کرنے پر جو لاگت آتی ہے، وہ پوری مقدار میں وصول نہیں ہوپاتی اور بجلی کے شعبے کا خسارہ بڑھتا جاتا ہے.جسے اب گردشی قرض (Circular Debt) کی اور اصطلاح سے بیان کیاجاتا ہے۔ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی کا 75 فیصد استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں۔صنعت، تجارت اور کاروباری سرگرمیوں کےلئے استعمال ہونےوالی بجلی سے کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں,اس بجلی کے استعمال میں اگر اضافہ ہو تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے لیکن گھریلو صارفین کے بجلی کے استعمال کے نتیجے میں انہیں بجلی کے زیادہ بل آتے ہیں اور عوامی بے چینی کا ذریعہ بنتا ہے۔اس تمام صورتحال اور عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اچھی حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ گھریلو صارفین بجلی کے باکفایت استعمال کی عادت اپنائیں۔ جب تک ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی کے موجودہ بحران میں ایک بہتر صورتحال پیدا نہیں ہوتی،اس عرصے کے دوران قومی سطح پر ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اپنائے جاتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام،ادارے اور کاروبار کرنے والے زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی بروئے کار لاتے ہیں۔دِن کے اجالے میں کاروبار ہوتا ہے اور روزمرہ زندگی کے زیادہ تر کام سورج کی روشنی میں ہی انجام دئیے جاتے ہیں۔توانائی کے بحران کے پیش نظر ہمیں بھی اپنی عادات اور طرز
 زندگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے.بجلی کا سب سے زیادہ استعمال شام پانچ سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے۔گھریلو صارفین کو چاہئے کہ شام کے اِن اوقات (Peak Hours ) میں اے سی،استری،موٹر وغیرہ جیسے زیادہ بجلی پر چلنے والے برقی آلات استعمال نہ کریں تاکہ گھریلو صارفین کا بجلی کا بل نہ بڑھے اور کھپت میں بھی کمی آئے البتہ فارمیسیز یعنی ادویات کی دکانیں یا بیکریز کو کھلا رکھا جاسکتا ہے۔اس میں بھی ایک اچھی تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ ایک ہی علاقے میں موجودہ بیکریاں اور ادویات کی دکانیں ہفتہ وار ترتیب کے ساتھ کھلی رکھی جائیں یعنی ایک ہی علاقے میں اگر دس دکانیں ہیں تو ایک دکان رات کو کھلی رہے اور ددیگر بند رہیں۔یہ عمل دنوں کی ترتیب سے کیاجاسکتا ہے تاکہ عوام کو تکلیف بھی نہ ہو اور بجلی کی بچت بھی کی جاسکے۔بازار اور دکانیں صبح جلدکھول کر اور شام کو جلد بند کرکے بھی بجلی کی خاطرخواہ بچت کی جاسکتی ہے جبکہ اس سے درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاسکتا ہے۔بات صرف بجلی بچانے کی نہیں بلکہ تمام قدرتی وسائل میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنا وقت کی ضرورت ہے چاہے پانی ہو بجلی ہو یا پھر دیگر قدرتی وسائل اسی میں بہتری ہے کہ وسائل کے ضیاع سے بچا جائے۔