ایک اہم گزر گاہ

 مشہور مصنف اور براڈ کاسٹررضا علی عابدی جب کسی مقام کا تذکرہ اپنے سفر نامے میں کرتا ہے توخود اس مقام کے رہنے والوں کیلئے بھی اس میں معلومات کا خزانہ ہوتا ہے۔ زیر نظر تحریر اس کا بہترین نمونہ ہے ،لکھتے ہیں کہ مےں صبح تڑکے راولپنڈی سے جیپ میں بیٹھ کر رہتاس پہنچا ابھی اتنا سویرا تھاکہ دنیا سے جہاں ہماری گاڑی رہتاس جانے والی تنگ اور خستہ حال سڑک پر مڑی وہاں گاڑیوں سے محصول لینے والا شخص بھی ڈیوٹی پر نہےں آیا تھا اور جس وقت ہم قلعے کے دروازہ خواص خانی پر پہنچے تو صبح کے سورج کی پہلی کرنوں میں یہ ساڑھے چار سو سال پرانی عمارت یوں لگی جیسے سونے کے پانی میں نہائی ہو رہتاس قلعے کے بارہ شاندار دروازے ‘ستر کے قریب برج‘دوہزار سے ذرا کم کنگرے‘ ساڑھے نوہزار سیڑھیاں‘ پانچ نقار خانے ‘تین باﺅلیاں ایک شاہی مسجد ‘پھانسی خانہ اور شیر پنجرہ دیکھتے ہوئے ہم آگے چلے بہت بلند رانی محل کا نظارہ کرتے ہوئے ہم سفید محل کی سڑھیاں چڑھے وہ عالم اس خواب جیسا تھا کہ جس میں کتنی ہی سیڑھیاں چڑھیں وہ ختم ہونے کو نہےں آتیں اس روز کی سیڑھیاں طے کرتے جب ہم اس بلندی پر پہنچے جہاں ایک بڑا کمرہ تھا اور جس میں ہرطرف جھرو کے کھلتے تھے اور ٹھنڈی ہوا فراٹے بھرتی تھی ، ایک اور مقام پر اسی قلعے میںلگے کتبوں سے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ کوئی باقاعدہ کتبے تو نہیں ہیں‘ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ دیر کو جو سپاہی یا امرا ٹھہر گئے تھے ان لوگوں میں غالباً شعر و شاعری کا مشغلہ تھا تو ان لوگوں نے جو شعر کہے وہ دیوار پر لکھ دئیے اور جھروکے کی چھت پر اس لئے لکھے کہ مٹ نہ جائیں اور بہت عرصے باقی رہیں‘ چنانچہ یہی ہوا کہ مٹے نہیں اور آپ ان کی تصویریں لے کر آئے ہیں‘ یہ شعر بہت دلچسپ ہیں‘ ان میں بے ثباتی دنیا کا احساس ملتا ہے‘ ان عبارتوں کی جو سب سے اہم خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں تاریخ دی ہوئی ہے‘ دیوار پر جو نام لکھے ہیں ان میں کچھ نام تاریخی ہیں‘ مگر ظاہر بات ہے کہ یہ بھی کچھ ہوں گے‘ اتنے بڑے قلعے میں ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ پرانے کتبے بہت کم ملتے ہیں‘ بس کہیں اس کی تعمیر کی تاریخیں اور اخراجات کا حال لکھا ہے اور ایک جگہ کہتے ہیں کہ کسی کتبے میں لکھا ہے کہ قلعے کی تعمیر کے وقت یہاں اتنے بہت سے مزدور اور سپاہی رہتے تھے کہ ان کے لئے روزانہ جو دال پکائی جاتی تھی اس کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دال میں جو ہر روز ہینگ ڈالی جاتی تھی اس کا وزن کئی من ہوتا تھا‘ مجھے یقین نہیں آیا مگر سوار الدین شیدا صاحب مُصر تھے کہ انہوں نے یہ تحریر اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے‘ سوار الدین صاحب کے بغیر رہتاس کی داستان مکمل نہیں ہوتی جو کوئی قلعے کو دیکھنے آتا ہے انہیں بھی ضرور دیکھتا ہے ان کی باتیں توجہ سے سنتا ہے‘ یوں سمجھئے کہ قلعے کی تاریخ کے وہ راوی اور باشندوں کے وہ نمائندے ہیں۔ “ اس اقتباس کا حاصل رضا علی عابدی کا منفرد اور دلچسپ اسلوب ہے جو قارئین کو متاثر کرتے ہیں اور آخر لفظ تک وہ تحریر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کسی بھی مصنف اور قلم کار کی تحریر کا انداز قارئین کے رد عمل سے لگایا جا سکتا ہے ۔ رضا علی عابدی کی شہرت ان کے سفرناموں کے باعث ہے جس میں انہوںنے اپنے اچھوتے اور منفرد انداز سے اس طرح کسی خاص جگہ کے بارے میں لکھا ہے کہ خود اس مقام کے رہنے والے اور وہاں پر زندگی گزارنے والے بھی ان معلومات کو پڑھتے ہوئے دم بخود رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ ایک کامیاب سفر نامہ نگار کی نظریںایک جگہ کی محض ظاہری خوبصورتی پر مرکوز نہیں ہوتیں بلکہ وہ تاریخٰ حقائق کو بھی اس انداز سے سامنے لاتا ہے کہ پڑھنے والا جہاں کسی جگہ کی ظاہری خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں تاریخی پس منظر سے آگاہی حاصل کرکے زیادہ مطمئن ہوجاتے ہیں۔