مہنگی بجلی : سستا حل

بجلی کیوں مہنگی ہے؟ اِس سوال کے جواب میں بجلی کے ترسیلی نظام میں پائی جانے والی خرابیاں ہیں جن کے باعث گزشتہ دو برس کے دوران 520 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان ملک کے دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے! تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی نصف سے زیادہ بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ پاور سیکٹر کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) نقصانات بڑھ کر پانچ سو بیس ارب تیس کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہیں۔حکومت نجی بجلی گھروں سے امریکی ڈالر میں طے شدہ قیمت کے عوض بجلی خرید رہی ہے اور ظاہر ہے کہ جب پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے قدر میں کمی ہوتی ہے تو اِس کا فوری اثر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ پہلی بات: بجلی کے بل کا تعین کسی بھی صارف کے استعمال شدہ یونٹس کی بنیاد پرکیا جاتا ہے یعنی کوئی صارف جس قدر یونٹ استعمال کرے گا‘ تو صرف یہی نہیں کہ استعمال شدہ بجلی کی قیمت اُسے ادا کرنا پڑے گی بلکہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو زیادہ ٹیکس بھی دینا پڑے گا۔ دوسری بات بجلی کے ہر صارف (گھریلو یا کاروباری) کو ماہانہ بل میں بنیادی طور پر 2 طرح کی ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں ایک بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کی وجب الادا رقم ہوتی ہے اور دوسرا براہ راست حکومتی محصولات ہوتے ہیں‘ جون 2004ءمیں جب ’ٹیلی ویژن لائسنس فیس‘ کو بجلی کے بل میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تو اُس وقت 100 یونٹ بجلی سے زائد استعمال کرنے والے صارفین کے لئے ’25 روپے‘ ٹیلی ویژن لائسینس فیس مقرر کی گئی تھی بعد ازاں اسے 35 روپے کر دیا گیا۔ اور 100 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو دی گئی رعایت بھی وقت کے ساتھ ختم کر دی گئی۔ تیسری بات: ’فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ‘ بھی بجلی کے بل کا حصہ ہے جس کا مطلب ہے کہ بجلی جن درآمدی ایندھن (کوئلے‘ فرنس آئل یا گیس) سے بنائی جائے گی اُس کی قیمت میں اضافہ صارفین سے وصول کیا جائے گا۔ پیدا بجلی کی لاگت پرمنحصرہوتی ہے۔ اس کا تخمینہ ہرماہ لگائے جانے کے بعد رقم صارف سے وصول کی جاتی ہے۔ چوتھی بات: گردشی قرضہ کم کرنے کے لئے ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ 43 پیسے صارفین وصول کئے جاتے ہیں۔ پانچویں بات: ’کوارٹرلی‘ یعنی ہر تین ماہ بعد ’ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (ڈی ایم سی) کی مد میں بجلی کی قیمت میں رد و بدل کیا جاتا ہے۔ چھٹی بات: بجلی پر اٹھارہ فیصد جنرل سیلزٹیکس (GST) عائد ہے اور اگر کوئی صارف ٹیکس فائلر نہیں تو اُس پر انکم ٹیکس بھی بجلی کے بل کا حصہ ہوگا۔ انکم ٹیکس پچیس ہزار روپے سے زائد بل پرعائد کیا جاتا ہے جو مجموعی بل کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔ بجلی صارفین سراپا احتجاج ہیں اور اُن کے کئی ایسے سوالات و مطالبات ہیں جن کا جواب بجلی کی خریداری اور اِس کے ترسیلی نظام پر نظرثانی کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔