کھیل کو کھیل رہنے دیں

اگر کچھ اور نہیں تو پاکستان اور بھارت کے لوگ کھیلوں خاص طور پر کرکٹ کے معاملے میں ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور اِس میں ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل بھی پاک بھارت شدید جذبات کی عکاسی کرتا ہے‘ جہاں کامیابی کی پیمائش صرف بنائے گئے رنز یا وکٹوں سے نہیں بلکہ قومی فخر میں بھی کی جاتی ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ مقابلے سال میں ایک دو بار ہی ہوتے ہیں۔ چند دہائیاں پہلے‘ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار دشمنی تھی اب پاکستان بھارت اور بھارت پاکستان میں کھیلنے کے لئے تیار نہیں اور یوں صورتحال ماضی سے قطعی برعکس ہے۔
پاک بھارت ہر میچ کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اِس میں شائقین کے جذبات عروج پر ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ چھوٹے قصبوں میں بھی حجاموں کی دکانیں اور چائے کے سٹالز کیفے بھرے ہوتے تھے اور ٹی وی سکرینوں پر میچ براہ راست نشر کئے جاتے۔ گیند بہ گیند کمنٹری اور کرکٹ کے جنونیوں کی جانب سے سوئنگز کو اسٹمپس کو اکھاڑتے ہوئے اور گیند کو باو¿نڈری پر اچھلتے ہوئے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا۔ کرکٹ کے شوقین افراد سے یہ بات کیوں چھین لی گئی؟ کھیل پر سیاست کا غلبہ کیوں ہوا ہے۔ بین الاقوامی کھیلوں کے طوفانی میدان میں شاید ہی کوئی دشمنی اتنی شدت رکھتی ہو جتنی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہے۔ یہ ایک ایسی دشمنی ہے جو اپنی الگ تاریخ رکھتی ہے اور یہ تاریخ جنون میں ڈوبی ہوئی ہے اور کروڑوں لوگوں کے دلوں میں سرایت کر چکی ہے۔ اس کے باوجود شائقین کی گرج اور ہر باو¿نڈری اور وکٹ کی سنسنی خیزی سیاست اور طاقت سے بالاتر ہے۔ 1952ءمیں پہلے مقابلے کے بعد سے ہی پاک بھارت کرکٹ کھلاڑیوں کے درمیان دشمنی کسی افسانوی داستان سے کم نہیں رہی۔ کرکٹ کے کئی مقابلے سنسنی خیز رہے جن کا فیصلہ آخری اوورز کے اختتام پر ہوا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے تنازعے کی اپنی شاندار کہانی ہے‘ جہاں دشمنی کی گونج تاریخ میں گونجتی ہے بالکل اسی طرح جیسے لارڈز کے سورج کو چومنے والے میدان اور سڈنی کے بے داغ کرکٹ مقامات ایشز کی شاندار تاریخ کی گواہی دیتے ہیں۔ ایشز کے برعکس‘ پاکستان اور بھارت کے میچوں کے معاملے میں کھیل سیاست کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ ایشز سیریز انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان متنازعہ لیکن سپورٹس مین سپرٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کھیلوں کا اپنا تقدس ہے اِن کا اپنا دائرہ ہے جہاں جوش و خروش‘ مثالی طور پر دیگر سبھی امور سے الگ رہنا چاہئے۔ پچ ایک ایسی جگہ ہونی چاہئے جہاں کھیلوں کی دشمنی کا تعلق نہ ہو۔ کھیلوں اتحاد کا باعث ہوتے ہیں اُور یہ اتحاد کی علامت کے طور پر کھیلنے چاہیئں۔ جہاں تنازعات کا فیصلہ جغرافیائی سیاسی ذمہ داریوں کے بوجھ کی بجائے گیندوں اور باو¿نسرز سے کیا جاتا ہو کیونکہ جب کرکٹ کے کھیل کی خاطر سیاست کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب قومیں کھیلوں کے نام پر قریب آتی ہیں اور سیاسی کشمکش سے آزاد ہوکر کھیل کے حسن اُور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتی ہیں پاکستان
 اور بھارت (ہمسایہ) ممالک کے درمیان روایتی (ٹیسٹ) کرکٹ تقریبا معدوم ہو چکی ہے۔ دسمبر دوہزار سات کے بعد سے ان کے درمیان کوئی ٹیسٹ میچ نہیں ہوا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی قابل احترام تاریخ صبر و تحمل کی علامت اور کھیل کی ابتدا کی یادگار ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ‘ پائیدار کرکٹ ہوتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کے نئے دور کا آغاز کرنے کے لئے یہ پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے سیاسی فیصلہ سازوں کو اِس بات پر اتفاق کرنا چاہئے کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھیں اور دونوں ممالک کے درمیان زیادہ کرکٹ کھیلی جانی چاہئے۔ پاکستان اور بھارت ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کا استعمال کرتے ہوئے بھی اپنے اختلافات ختم کر سکتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی باہمی رابطے کے طور پر کام کر سکتی ہے جس سے تماشائی اور ایتھلیٹس دوطرفہ تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں اور دشمنی دوستی سے بدل سکتی ہے۔ سیاسی رہنماو¿ں کو کرکٹ ڈپلومیسی کی طاقت
 کو سمجھنا چاہئے کیونکہ اِس طرح کی سفارتکاری سے دو ہمسایہ ممالک میں کشیدہ تعلقات کو معمول پر لایا جا سکتا ہے۔کرکٹ کا کھیل پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میںیکساں مقبول ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان ممالک میں کرکٹ کا جو انداز ہے وہ یقینا عالمی سطح پر مقبول بھی ہے ۔ اب اگر کھیل کے میدانوں میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مقابل موجود ہوں تو اس سے نہ صرف کھیل کا فائدہ ہوگا بلکہ اس سے عوام میں موجود جذبات بھی کھیل کے میدان تک ہی محدود رہیں گے۔پاکستان اور بھارت دونوں میں کرکٹ تعلقات اگر بحال ہو جائے تو اس سے دونوں ممالک میں کھیل کے معیار کو بلند کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ جب دونوں ممالک آپس میں کھیلیں گے تو اس سے کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا موقع ملے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ٹیم میں جو کھلاڑی آتے ہیں ان کی اولین خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ بھارت کے خلاف یادگار پرفارمنس دیں ایک وقت تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ میچز کا سلسلہ جاری رہتا اور کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف ریکارڈ بناتے تاہم بدقسمتی سے بھارت کی طرف سے کھیلوں کے میدان کو سیاست سے آلودہ کیا گیا پاکستان کی طرف سے کبھی بھارت کے ساتھ کھیلنے سے انکار نہیں کیا گیا اور اب بھی پاکستان ورلڈ کپ میچ کھیلنے کے لئے بھارت جانے کے لئے تیار ہے تاہم ہندو انتہا پسند ایجنڈے پر عمل پیرا مودی حکومت نے پاکستان کی مخالفت اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور اس کے ذریعے وہ ہندو انتہا پسندوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اگر اندرونی سیاست میں پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت کو استعمال کرنے کی روش ترک کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلوں کے میدان میں میچز ہوں اور دونوں ممالک کے شائقین جو کھیل کو کھیل ہی رکھنے کے حق میں ہیں اس موقع سے بھرپور لطف اندوز ہوں۔ تاہم جیسے پہلے کہا گیا اس معاملے میں ذمہ داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے جس نے کھیل کے میدانوں کو سیاست سے آلودہ کیا۔