اندرون شہر بیرون شہر 

کمرے میں دو بندے زیادہ ہو جائیں یا کسی چھوٹی تقریب میں آٹھ نفر ہوں کمرے کا حبس بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ انسان کا جسم ہو یا کوئی چیز چھوٹی یا بڑی اس میں سے گرمی نکلتی ہے۔کمرے کا درجہ ¿ حرارت بڑھ جاتا ہے اور گرمی تو ویسے بھی نہیں جا رہی ۔پھر ان دنوں خاص اندرون شہر میں تو زیادہ حبس اور گرمی محسوس ہوتی ہے کیونکہ کھلا علاقہ تو ہے نہیں ۔دیواریں جیسے کسی نے سینے پر چڑھا دی ہوں اور بندے کو ان کے اندر مغلیہ دور کی انارکلی کی طرح دیواروں کے بیچ چنوا دیا گیا ہو۔اندرونِ شہر کا حال کچھ ایسا ہی ہے ۔کہتے ہیں 22 بھادوں کو سردی کی آمد کا اعلان ہو جاتا ہے ۔اس کے بعد موسم ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ہوتا ہوگا کیا کہہ سکتے ہیں شاید ہمارے پھولوں کے اس شہر میں نہ ہوتا ہو کیونکہ پنڈی اسلام آباد میں کل ہی موسلا دھار بارش ہوئی ہے ۔جس کے یخ بستہ اثرات پشاور تک تو پہنچتے ہیں مگر بنیادی طور پر تو مجموعی موسم گرما ہی کا ہے ۔کیونکہ دو ایک روز قبل اندرونِ شہر ایک منگنی کی تقریب میں ایک کمرے میں قریب دس بندے تھے مگر حبس دم کا وہ عالم تھا کہ کچھ نہ پوچھو ۔ گرمی اتنی کہ پنکھے کے نیچے ٹپ ٹپ پسینے بہہ رہے تھے۔سب کہہ رہے تھے آج گرمی زیادہ ہے ۔ان کا زوراس پرتھا کہ آج ہی کے دن تپش زیادہ ہے مگر شہر کے بیچوں بیچ تو دو دو کمروں کے تنگ مکانات کا سلسلہ دور تک پھیلتا چلا گیا ہے ۔پھر تاریک گلی کوچے ہیں ۔دکانیں او ربازار ہیں شہریوں کی آوت جاوت زیادہ ہے ۔جس کو دیکھو یہیں اسی فضا میں گھسا ہوا ہے ۔ظاہر ہے کہ بندہ سہولیات کی خاطر شہر کا رخ کرتا ہے ۔ہر چیز رات بارہ بجے کے بعد بھی دستیاب ہوتی ہے ۔اس لئے لوگوں کا دل شہر میں زیادہ لگتا ہے۔باہر گلی کوچوں کے موڑ پر چارپائیاں بچھائے لوگ قہوہ خانے سے منگوا کرچائے قہوہ پی رہے ہیں سُرکیا ںلی جا رہی ہیں اور گپ شپ لگ رہی ہے زندگی گزر نہیں رہی بلکہ زندگی ان کو گزار رہی ہے کیونکہ زندگی تو بنیادی طور پر خشک بے زراعت چیز ہے اس میں اگر کوئی چیز ہریالی بھرتی ہے او رگرمی کے باوجود دل کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے تو وہ یہی گپ شپ ہے جس کے لئے ہم جیسے جان دیتے ہیںمگر جب آپ اس تنگ فضا سے نکل کر اپنے علاقے رنگ روڈ کے آس پاس فضا کے کھلے ڈلے گھر میں واپس آتے ہیں تو رنگ روڈ پر چڑھتے ہی دل اچھا ہونے لگتا ہے ۔وہ حبس وہ پسینوں میں نہا جانا کہیں پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔بس ہر شہری کی اپنی مجبوریاں ہیں جو وہ کہیںدور جا کر یا شہر ہی کے اندر تنگ دامانی میں بسیرا کرتا ہے ۔ویسے جو لوگ کھلے علاقوں کے عادی ہوتے ہیں انہیں شہر کی گھٹن والی آب وہوا مزا نہیں دیتی ۔وہ جلد اپنے نشیمن کو لوٹ جانا چاہتے ہیں ۔شہر میں ایک دن یا کسی ڈیوٹی یا تقریب کو نبھانے کی خاطر جایا تو جاتا ہے ۔مگر دن بھر سے زیادہ وقت گزر جائے تو اپنے آشیانے کو”پرندہ لوٹ آنا چاہتا “ویسے بھی کھلی فضا دل کو اچھی لگتی ہے ۔خاص طور پر جن علاقوں کو درختوں نے اپنے سائے سے ڈھانپ رکھا ہو وہ علاقے شہر کی بہ نسبت زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں ۔کیونکہ ایک تو وہاں وہ حبس نہیں ہوتا جو شہر کے سولہ دروازوں کے اندر واقع ہوتا ہے ۔اس لئے اندرونِ شہر اور بیرونِ از شہر کی آب وہوا اور فضا میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے ۔شہر میں تو ہمارے جیسا بندہ جا کر پشیمان ہو جاتا ہے ۔مگر کیا کریں اپنے پیارے جو شہر کو اپنی رہائش کے لئے منتخب کر چکے ہوتے ہیں تو ان سے ملنے کو یا ان کے بلانے پرتو شہر کی فضامیں جانا ہوتا ہے ۔جتنی جتنی دیواریں زیادہ ہوں گی اور عمارات کا ایک سلسلہ دراز ہوگا اتنا ہی تازہ ہوا کاعمل دخل کم ہوگا اور تازہ ہوا اوپر ہی اوپر کہیں سے کہیں کسی اور مقام پر چلی جاتی ہے ۔اس لئے شہر میں رونق تو زیادہ ہے مان لیا اور تفریح کے مناظر بھی زیادہ ہیں مگر وہ لوگ تو اپنی اس تنگ فضا میں عادی ہوتے ہیں ان کو احساس نہیں ہوپاتا کہ یہاں سانس کی گھٹن زیادہ ہے مگر جو لوگ شہر سے باہر موٹر وے کے آس پاس اور رنگ روڈ اور یونیورسٹی کے علاقوں میں کھلی آب وہوا میں مقیم ہیں ان کو شہر میں داخل ہوتے ہی گھٹن کا احساس ہونے لگتا ہے۔پھر کوئی آدمی اگر حساس ہو اور شور کو ناپسند کرتا ہو رش میں دل نہ لگتا ہو بلکہ چار بندے زیادہ ہو جائیں تو دم گھٹنے لگے اس کو شہر کی فضا عارضی طور پر کہ جب تک وہ کسی تقریب کاحصہ ہوتا ہے پسند آتی ہے مگر جوں ہی کام ختم ہو تا ہے وہ پرتولنے لگتا ہے کہ نکلیں اور گھر جا کر سکون کی فضا میں سانس لیں۔کیونکہ شہر کو خدا آباد رکھے او ریونہی گہماگہمی اپنے عروج پر رہے مگر بعض حسا س او ربیمار طبیعتوں والے لوگ شہروں میں آکر مزید بیمار ہونے لگتے ہیں۔ان کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ گھروں کو لوٹ جائیں ۔کیونکہ وہ کھلی فضا کے عادی ہو تے ہیں ۔انہیں پھر اپنے ہی آبائی علاقے سے جہاں ان کا بچپن گزرا ہوتا ہے کوفت ہونے لگتی ہے۔شہری باہر کے لوگوں کے لئے حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ لوگ شہر سے باہر بھلا کیوں اور کیونکر رہ پاتے ہیں ۔جبکہ بیرون شہر رہنے والے اندرون شہر والوں پر حیران ہوتے ہیں کہ یہ اتنی مصروف اور رش والی سائیڈ پر کیوں اور کیسے رہ رہے ہیں ۔؟۔