انسانیت بہت دکھی ہے ۔یہ نہیں کہ کوئی غریب ملک ہو تو وہاں کی آبادی کو دکھ حاصل ہوں۔ انسان جہاں کہیں بھی رہتا ہے اسے کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہونا ہے۔کیونکہ کسی علاقے اور ماحول کی خوراک جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو بعض بیماریاں موروثی ہیں۔ ان کوہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ مثلاً بلڈ پریشرہے شوگر ہے اور دیگر امراض ہیں جن کا تعلق دل کے ساتھ دماغ کے ساتھ اور جسم کے دوسرے حصوں کے ساتھ ہے۔وہ کون سا ملک ہوگا جہاں ہسپتال نہ ہوں اور زیادہ نہ ہوں ہر جگہ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں علاج کی سہولیات سب ملکوں سے زیادہ اور اچھی ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہا ںکے مریض باہر کے ملکوں کے ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔حالانکہ یہاں بھی شفا یاب ہو سکتے ہیں مگر وہاں کی ہائی ٹیکنالوجی کی وجہ سے او رنایاب اور اچھی مشینوں کے سبب وہاں صحت کی حفاظت آسان ہے ۔انسانیت کے چونکہ دکھ زیادہ ہیں اس لئے ہر دوسراآدمی کسی نہ کسی بیماری کو اپنے اندرون لئے پھرتا ہے۔کسی کو بلڈ پریشر ہے تو کسی کو اس کے ساتھ دو بیماریا ںاو ربھی ہیں ۔لہٰذا ہسپتالو ںکی ضرورت ہر وقت رہتی ہے اور ہر دور میں رہی ہے اور آئندہ بھی جب تک انسان ہے ہسپتال رہیں گے ڈاکٹر رہیں گے کیونکہ مرض نہیں جاتے انسان چلے جاتے ہیں۔سو ہمارے ہاں اگر زیادہ ہسپتال ہیں تو یہ زیادہ اچھا ہے۔کیونکہ شہر وسیع ہو رہا ہے۔پہلے مٹھی میں آ جانے والا شہر اب کھلی ہوئی زلفِ پریشاں کی طرح ہر سُو پھیلا ہواہے ۔فاصلے زیادہ ہو گئے ہیں او راسی تناسب سے آبادی بھی زیادہ ہو گئی ہے ۔ہسپتال اگر سرکاری ہے تو اس میں بھی کچھ نہ کچھ خرچہ ہو تا ہے۔پھر سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں ان کی فیسیس بھی کچھ اتنی زیادہ ہیںکہ ان کے پاس سے ایک دیہاڑی دار مزدور کا علاج کرنا بھی بہت مشکل ہے ۔پھر ہسپتال جانا تو نہیں نا ہسپتال میں لکھی جانے والی دوائیں بھی اتنی قیمتی اورمہنگی اور آج کی مہنگائی کے لحاظ سے اتنی گراں ہیں کہ اب سوچنا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی فیس ادا کریں یا ڈاکٹر کی بتلائی ہوئی دوا خریدیں یا گھر کے لئے روٹی خریدیں ۔ بھاری فیسیں اور اوپر سے لیبارٹری ٹیسٹ پر ہزاروں روپے اٹھ جاتے ہیں۔شہر پھیل رہاہے اور اس کی آبادی اور فاصلوں کو مدنظر رکھ کر نئے نئے ہسپتال کھل رہے ہیں جو اپنی جگہ بہت احسن عمل ہے کیونکہ شہریوں کو ان گنت مسائل درپیش ہیں جن میں صحت کے ساتھ تعلیم او ردیگر بھی ہیں۔ہمارے ہاں تو آبادی کو صحت سے زیادہ تعلیمی زوال کا مسئلہ بھی ہے اس کی وجہ سے ہمارے مسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جس کو سمجھا¶ وہ سمجھتا نہیں ہے ۔پھر تعلیم اگر زیادہ ہو تو اس پر لاگت لاکھوں روپے آتی ہے ۔پھر ڈگری حاصل کر کے بیروزگاروں کی لسٹ میں اپنا نام لکھوا لواور روزگار کے پیچھے جوتیاں چٹخاتے پھرو۔ مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں جس قدر اضافہ ہو اس قدر بہتر ہے اور اس حوالے سے نجی اور سرکاری شعبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔محض سرکاری اداروں کی موجودگی کافی نہیں۔ تاہم نجی شعبہ ہو یا پھر سرکاری۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں آنے والے افراد اس کو خدمت کے جذبے سے اپنائیں تو کام بنے گا۔ یہ دو ایسے شعبے ہیں کہ جن میں وہ لوگ آئیں یا وہ لوگ سرمایہ کاری کریں جو دوسروں کی بھلائی اور خدمت چاہتے ہیں۔صحت کا شعبہ ہے یا پھر تعلیم کا نجی سیکٹر نے اس میں فعال کردار اد اکیا ہے اور کر رہا ہے۔ اگر حکومت نجی ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو مراعات دے تو یقینا اس کے بہت مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
تازہ ترین
اسلام آباد ہائیکورٹ؛ کے پی ہاؤس ڈی سیل کرنے کا حکم، سی ڈی اے کا اقدام غیرقانونی قرار
ملتان ٹیسٹ: چوتھے روز کا کھیل ختم، پاکستان کے دوسری اننگ میں 6 کھلاڑیوں کے نقصان پر 152 رنز
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیانات پر مشی خان بھڑک اٹھیں
سونے کی قیمت میں مسلسل تیسرے روز کمی
حج پالیسی 2025 منظور : آئندہ سال سرکاری حج پیکج کتنا ہوگا؟
واٹس ایپ نے صارفین کو تصاویر کے ذریعے دھوکے سے بچانے کیلئے کام شروع کردیا
بگ باس 18 میں گدھے کی اینٹری سے ہنگامہ برپا، سلمان نئی مشکل میں پھنس گئے
بغیر پیسوں کا اوور ٹائم: ملازم نے نوکری کے پہلے دن ہی استعفیٰ دیدیا
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیانات پر مشی خان بھڑک اٹھیں
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت رجحان، ڈالر سستا