ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کیلئے تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے گزشتہ روز تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کاروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بنیچ مل کر کام کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینیئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کون سی درخواست میں وکیل ہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیاگیا، اس پر آپ کیا دلائل دیں گے؟

خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں، اُس کا کیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کو سننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، ’پارلیمنٹ اومنی پوٹینٹ ہے‘ کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا، آپ فوکس رکھیں۔

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں، آج کی بات کریں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگرقانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟

جسٹس عائشہ اے ملک نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ اگر فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟