امریکہ ‘ بھارت:تضادات اور تناﺅ

گزشتہ مہینے کینیڈا اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں امریکہ کے دھیمے اور زیر لب رد عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا تھا کہ واشنگٹن اپنے دو اہم اتحادیوں کے درمیان بہت جلدصلح صفائی کرا دیگا امریکی میڈیا جو اکثر خارجہ معاملات میں حکومتی پالیسیوں کی تائید کرتا ہے‘ کے مصالحانہ ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا تھاکہ معاملہ رفت گذشت‘ ما بخیر شما بسلامت والی صورتحال ہو جائیگی‘اس وقت یہ کہنا بجا تھا کہ چین جیسے دشمن کے ہوتے ہوئے امریکہ اپنے دوستوں کے درمیان تلخی اور کدورت کو بڑھنے نہ دیگا مگر ایسا نہ ہوا ہر دیپ سنگھ نجر کا قتل 18 جون کو برٹش کولمبیا کے شہر Vancouver کے مضافات میںواقع ایک گردوارے میں ہوا تھا ‘جی ٹونٹی کا سربراہی اجلاس 9 اور 10 ستمبر کو نئی دہلی میں ہوا۔ یہ نریندر مودی کےلئے فتح و کامرانی اور فخر وانبساط کے لمحات تھے۔ اسے بھارت ایک عالمی طاقت بنتے ہوئے نظر آ رہا تھا مگر نئی دہلی سے مہمانوں کے رخصت ہونے کے دو چار دن بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ مودی کے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس سمٹ کے دوران ایک اہم تقریب میں شرکت سے انکار کیا‘مودی اور ٹروڈو کے درمیان تلخ کلامی کی خبریںبھی آئیں مگر بات آئی گئی ہو گئی امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے دھیمے لہجے میں کہا کہ بھارت کے تعاون سے یہ مسئلہ حل ہو جائیگا مگر پیر سولہ ستمبر کو جسٹن ٹروڈو نے ہاﺅس آف کامن میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ بھارت ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے ٹروڈو نے کہا کہ انکے پاس ایسے قابل اعتبار ثبوت موجود ہیں جو یہ پتہ دیتے ہیں کہ یہ جرم بھارتی حکومت کے ایما پر کیا گیا ہے نئی دہلی نے اس الزام کو بے بنیاد کہہ کر مسترد کر دیا‘ عالمی سطح پر رونما ہونیوالے اس اہم واقعے نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے مگر ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ اٹھارہ جون کی اس بہیمانہ واردات کے بعد دس ستمبر تک جسٹن ٹروڈو خاموش کیوں رہے۔ لگ بھگ گیارہ ہفتے کی اس خاموشی کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ امریکہ کے کہنے پر ٹروڈو نے جی ٹونٹی سمٹ کے اختتام کا انتظار کیا تا کہ اس موقع پر کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو۔ پھر اسکے بعد اس گتھی کو سلجھا دیا جائیگا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ نئی دہلی میں مودی اور ٹروڈو کی تلخ کلامی کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ آئینے میں بال آ چکا تھا‘ مفاہمت ہو کر بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ امریکہ نے بھی جی ٹونٹی اجلاس کے بعد رفتہ رفتہ تیور بدلنے شروع کیے۔ پہلے انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم احتساب ہوتے ہوے دیکھنا چاہتے ہیںپھر صدر بائیڈن نے بیان دیا کہ ” ہم انڈیا سے مثبت رد عمل کی توقع کر رہے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ “Financial Timesنے لکھا کہ کینیڈا کو انڈیا کے اس واردات میں ملوث ہونے کی اطلاع امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے دی تھی اس لیے اسکی اثابت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے تبصرہ کیا کہ ان الزامات نے انڈیا کی ان کامیابیوں پر پانی پھیر دیا ہے جو اس نے جی ٹونٹی میں حاصل کی تھیں۔ اے پی نے یہ بھی لکھا کہ چند روز پہلے انڈیا جیو پالیٹکس کے بام عروج پر تھا مگر اب اسکاوزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک آئیگا تو اسکے ہاتھ لت پت ہوں گے۔ نیو یارک ٹائمز کے کالم نگا رنکولس کرسٹوف نے انڈیا کی سخت مذمت کرتے ہوے Smoking Gun کا محاورہ استعمال کیا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اس واردات میں جو بندوق استعمال ہوئی ہے اسکا دھواں قاتل کی موجودگی کا پتہ دے رہا ہے۔تو کیا نریندر مودی کے بارے میں اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ” خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا“ کیا امریکہ نے چین کے مقابلے میں بھارت کوکھڑا کرنے کی حکمت عملی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ امریکہ‘ بھارت تعلقات میں کسی حد تک تلخی اور تناﺅ ضرور آیا ہے مگر ساتھ نبھانے کے وعدے وعید اپنی جگہ موجود ہیں۔ وقت آنے پر اس سمت پیش رفت ہو گی بھی اور نظر بھی آ جائیگی مگر فی الحال وین کوور میں ہونیوالے قتل کا معاملہ سر فہرست ہے۔ کینیڈا Five Eyes کا ممبر ہونے کے حوالے سے امریکہ کا فیملی ممبر بھی ہے اور ہمسایہ بھی ۔ امریکہ ‘ بھارت کشیدگی میں رفتہ رفتہ اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ بھارتی میڈیا امریکہ کو یاد دلا رہا کہ اسنے دو سال پہلے کابل میںایمن الظواہیری کو ڈرون حملے میں ہلاک کیاتھا‘ تین برس قبل اسنے بغداد میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو بھی ڈرون حملے میں قتل کیا اور بارہ سال پہلے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ایک ملٹری آپریشن میں موت کی نیند سلا دیا۔ بعض بھارتی دانشور امریکہ کو ان تمام فوجی آمریتوںکی یادبھی دلا رہے ہیں جو اس نے سرد جنگ کے دوران کئی ممالک میں قائم کی تھیں۔ دوسری طرف امریکی میڈیا نے بھی یہ کہنا شروع کر دیاہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو نریندر مودی کا قد کاٹھ بڑھانے سے زیادہ اپنی اخلاقی اقدار کے تحفظ کی فکر کرنا چاہیے۔ نکولس کرسٹوف نے 24 ستمبر کے کالم میں لکھا ہے کہ کینیڈا کے ایک شہری کے قتل میں بھارت کا ملوث ہونا بہر حال ایک ملک کی خود مختاری اور قومی سلامتی کی خلاف ورزی کا مسئلہ ہے اور اسکی تہہ تک پہنچے بغیر اسے ترک نہیں کیا جا سکتااس صورتحال کی کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہو جائیگا جب امریکہ یا کینیڈا نے اس واردات میںبھارتی حکومت کے خفیہ ہاتھ کے بارے میں ثبوت عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کر دیئے اس وقت تک تو یہ آگ سلگتی رہے گی مگر مکافات عمل کے اس لمحے ہر دیپ سنگھ نجر کا قتل واقعی ایک گیم چینجر بن جائیگا اس فیصلہ کن موڑ پر RAW کی اس بہیمانہ واردات کے جیو پولیٹیکل مضمرات سامنے آ جائیں گے۔