میزبان و اداکارہ رباب ہاشم کا ہے کہ شادیاں طلاق پر ختم کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئیے لیکن بعض حالات میں طلاق لینا غلط بات نہیں ہوتی۔
حال ہی میں رباب ہاشم نے ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنی شادی سمیت شوبز کیریئر پر بھی کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے محض 10 سال کی عمر میں جیو ٹی وی سے بچوں کے ایک پروگرام سے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور وہ 16 سال کی عمر میں پہلی اسپورٹس میزبان بنی تھیں۔
ان کے مطابق ٹی وی پر آنے کے دو سال بعد 12 سال کی عمر میں ہی انہوں نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں اداکاری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا تھا اور 20 سال کی عمر سے قبل ہی انہوں نے اداکاری شروع کردی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اداکاری کے دوران ایک پروجیکٹ میں کام کرتے وقت انہوں نے بہت ہی برا تجربہ کیا، جس وجہ سے انہوں نے 2017 میں اداکاری سے کچھ بریک بھی لیا، تاہم انہوں نے مذکورہ تجربے اور پروجیکٹ کا نام نہیں بتایا۔
رباب ہاشم نے پروگرام میں دیگر مسائل پر بھی بات کی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ انتہائی سخت قسم کی ’فیمنسٹ‘ ہیں اور وہ ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے سے بھی اتفاق کرتی ہیں۔
ان کے مطابق ’میرا جسم، میری مرضی‘ نعرہ بلکل درست ہے، بعض لوگ اپنے مطلب کے لیے اس کا مفہوم تبدیل کردیتے ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ عام طور پر لوگ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عورت مارچ کے بعد ریپ کیسز بڑھ گئے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ مذکورہ مارچ کے بعد ایسے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں اور ان پر اب بھی بات کی جاتی ہے۔
شادی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کورونا کے دور میں سادگی سے شادی کی اور ان کی شادی بظاہر ارینج میریج تھی لیکن درحقیقت انہوں نے پسند کی شادی کی۔
ان کے مطابق شادی کے دو سال تک وہ پاکستان میں ہی رہیں، بعد ازاں وہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) منتقل ہوگئیں تھیں لیکن جلد ہی دوبارہ شوبز میں کام کرنے کے لیے واپس وطن آئیں گی۔
رباب ہاشم نے اعتراف کیا کہ بچے کی پیدائش کے بعد وہ ’پوسٹ پارٹم‘ ڈپریشن میں چلی گئی تھیں، کیوں کہ دیگر خواتین کی طرح ان کی زندگی بھی ایک دم تبدیل ہوگئی اور انہیں بہت ساری باتیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن پر زیادہ بحث نہیں کی جاتی اور نہ ہی خواتین کو اس بات کا شعور ہے، اس لیے بہت ساری نئی مائیں ایسے مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاقوں پر بات کرتے ہوئے رباب ہاشم نے کہا کہ شادیاں ٹوٹنے کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بزرگ افراد بچوں کو کہتے تھے کہ اب ان کی شادی ہوگئی، وہ جانیں اور ان کا کام جانیںِ، اب وہ واپس والدین کی طرف نہ دیکھیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔