عورت کہانی : جرم و سزا

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام


عورت کہانی : جرم و سزا


سنٹرل جیل‘ ہری پور‘ میں سال دو ہزار سولہ سے قید کی پچیس سالہ سزا مکمل کرنے والی خاتون (مسماۃ روبینہ) کو جب جیل لایا گیا تھا تو اُس کی گود میں چھ ماہ کا بچہ تھا جس کی عمر اب سات سال ہو چکی ہے جبکہ اِس خاتون کا قید میں آٹھواں سال جاری ہے! مسماۃ روبینہ نے اپنے خاوند کا قتل کیا تھا اُور اُس نے اپنے اِس جرم کا اعتراف بھی کر رکھا ہے۔ یہ قیدی عورت ایک ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے قیدخانے میں اپنے ساتھ مقیم رکھے سات سالہ بچے کو تعلیم دلوانے کے لئے مدرسے بھیجتی تاکہ کم سے کم اُس کی قسمت میں بنا جرم لکھی قید سے جب بھی رہائی ملے تو وہ دنیا کو کسی منفی نہیں بلکہ مثبت زوایئے دیکھ سکے۔

جیل کے مناظر میں یہ منظر ایک قیدی ماں اُور اُس کے بیٹے کے ہیں اُور دونوں ہی اپنے جرم سے زیادہ بڑی سزا کاٹ رہے تھے! اِس خاتون کو قید کی سزا سیشن کورٹ نے سنائی‘ جسے بعدازاں ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے پر بھی کوئی عدالتی فیصلہ نہ بدلا۔ جیل اصطلاحات میں بات کی جائے تو ”اِس قیدی خاتون کی کم و بیش آٹھ سال کے دوران کوئی ملاقات نہیں آئی۔“ جیل خانوں میں ملاقات کا مطلب پیسے‘ کھانا پینا‘ کپڑے اُور دیگر سازوسامان ہوتا ہے۔ ویسے تو قید خانے میں سبھی کی حالت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن جس قیدی سے کوئی ملاقات کرنے نہیں آتا اُس کی حالت دیگر قیدیوں سے بہت ہی مختلف (کسمپرسی کی جیتی جاگتی تصویر) ہوتی ہے اُور چاہے وہ اِس داخلی کیفیت کا اظہار بول کر‘ کرے یا نہ کرے لیکن اُس کے چہرے میں دھنسی آنکھوں اُور افسردہ لہجے میں بات چیت سے عیاں تھا کہ وہ کس قسم کے ذہنی تناؤ (نفسیاتی دباؤ) سے گزر رہی ہے اُور اِس ڈپریشن نے اُس کو اندر سے کس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ اب اُس کے منہ سے ’انصاف‘ کا لفظ ہی نہیں نکلتا بلکہ وہ عدالت بعداز عدالت رجوع تو کر رہی ہے‘ لیکن اُسے ہر طرف پھیلی روشنی میں اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے! کسی ملک میں انصاف کی یہ حالت بھی ہو سکتی ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک زندہ عورت‘ جسے انسان بھی نہیں سمجھا جا رہا اُور جس کے لئے آئین پاکستان میں تحفظ نہیں‘ انصاف نہیں‘ تو کیا کوئی ملک و معاشرہ ایسی حالت میں پرسکون رہ سکتا ہے جبکہ اُس کے ہاں ظلم بالائے ظلم روا ہو؟ اگر جرم خاتون نے کیا ہے اُور اُسے سزا بھی ملی ہے تو اُس کے بچے کی سات سالہ قید کا حساب کتاب اُور جواب کون دے گا؟


ہری پور جیل کا دورہ کرنے والی خاتون صحافی نے سوال پوچھا کہ ”جیل کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟“ تو اُس نے سوال مکمل ہوتے ہی بنا تمہید کہا ”جیل کی زندگی بہت بُری ہوتی ہے۔اللہ کسی کو بھی یہاں لے کر نہ آئے کیونکہ وہ (قیدی) اپنوں سے دور (الگ) ہو جاتا ہے اُور جس کے پاس اپنے (عزیزواقارب ہی) نہ ہوں تو بھلا اُس کی زندگی‘ کیا زندگی ہو گی!؟“ اُس نے مزید کسی سوال کا انتظار کئے بغیر کہا کہ میری تمام والدین سے درخواست ہے کہ ماں باپ اپنی بچیوں کی شادی کے وقت اُن کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں۔ بچیوں کی شادیاں وہیں کی جائیں‘ جہاں وہ کرنا چاہتی ہوں۔ غلطی انسان سے ہوتی ہے لیکن اگر سزا ختم ہونے کی کوئی بھی اُمید نہ ہو تو ایسی مسلسل سزا اندر ہی اندر سے توڑ ڈالتی ہے۔ کیا اِس سے بڑا کوئی دوسرا جملہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اگر یہ کہے کہ میں اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں حتیٰ کہ اپنے بچوں کی شکلیں (شناخت) بھی بھول چکی ہوں

جیل کی کوٹھڑی کا منظر عجیب تھا۔ اِس میں ایک بستر (پلنگ سنگل بیڈ) رکھا تھا‘ جس کے سراہنے ہوا سے جھولتا پردہ ’پرائیوسی‘ کی نشاندہی کر رہا تھا۔ ایک کونے میں بوسیدہ واٹر کولر میز پر قدرے بلند رکھا ہوا تھا‘ اِس کولر کا رنگ جو شاید کبھی گلابی و سفید (گہرا) ہوتا ہو لیکن اب قیدی کی رنگت کی طرح اُڑ چکا تھا۔ کمرے کے اِس کونے میں زمین پر جمی کائی کے درمیان رکھے کولر سے مسلسل پانی رسنے کی وجہ فرش اُور دیوار کے ساتھ والی جگہ نمدار تھی لیکن قیدخانے کی کوٹھڑی میں اِس قدر ’آسائش‘ ملنا بھی اپنی جگہ غیرمعمولی تھا اُور اگرچہ اِس کوٹھڑی (cell) کی مکین کی طرح ہر شے کے رنگ اُڑے ہوئے تھے لیکنکمرے کا پختہ فرش جہاں جہاں سے بھی خشک تھا‘ شاید ہر روز صاف کرنے کی وجہ سے اِس کا اصل رنگ دیکھا جا سکتا تھا۔ واٹر کولر کی میز (تپائی) کے ساتھ زمین پر پلاسٹک کی پانچ کلو گنجائش والی زرد رنگ کی بالٹی رکھی تھی۔ یہ بالٹی گھی استعمال کرنے کے بعد رہ جانے والا کباڑ ہوتا ہے۔ وہاں چند پلیٹیں اُور پلاسٹک کے برتن بھی خاص نفاست و ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ اِس کوٹھڑی میں کہیں بھی بے ترتیبی نہیں تھی۔ ہر شے کو کسی نہ کسی جگہ پر ایسے رکھا گیا تھا کہ اُس سے کمرے کے عیب بھی چھپ رہے تھے جیسا کہ کولر کے لئے جس کونے کا انتخاب کیا گیا تھا اُس سے جڑی دیوار کا اکھڑا ہوا پلستر قیدی خاتون کی زندگی میں آئے ہیجان کا استعارہ معلوم ہو رہا تھا۔

 
سنٹرل جیل ہری پور کا دورہ کرنے والے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو یقینا محسوس ہوا کہ قیدخانے میں وقت (time) سیکنڈ‘ منٹ یا گھنٹے کی صورت (عمومی رفتار سے) نہیں گزرتا اُور نہ ہی اِس کے پیمانے شب و روز کے ساتھ بدلتے ہیں بلکہ یہاں تو ہر لمحہ گھنٹے کی صورت طویل محسوس ہوتا ہے۔ سزا یافتہ قیدی خواتین میں سے ہر ایک نے اپنے لئے کوئی نہ کوئی کام بشمول دستکاری اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ اِس قیدی خاتون کے ہاتھ میں بھی قریشیہ بننے کے لئے سلاخیں تھیں اُور اُس کے ہاتھ کسی مشین کی طرح خودبخود چل رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ یہی اُس کا مشغلہ ہے کہ وہ اپنا بیشتر وقت گزارنے کے لئے سلائی کڑھائی کرتی تھی۔ جیل انتظامیہ نے بتایا کہ82 قیدیوں کو 5 مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں اُور جیل کے اندر بارہ ایکڑ اراضی پر کھیتی باڑی اِس قدر کامیاب تجربہ ثابت ہوئی ہے کہ اِس سے حاصل ہونے والی سبزی کی مالیت بائیس لاکھ تھی۔ خواتین کے لئے ہنرمندی کے مواقع مردوں کے مقابلے الگ نوعیت کے تھے اُور اِن کے لئے جیل کا ایک الگ حصہ مختص کیا گیا تھا۔ آٹھ سال سے بچے کے ہمراہ قید کاٹنے والی خاتون قریشیا (جسے ملیشیا بھی کہتے ہیں) بُننے اُور کپڑوں پر موتی جڑنے کا کام کرتی تھی‘ جو عروسی ملبوسات کی زینت میں اضافہ کرتے ہیں اُور جنہیں پہننے والی دلہن یا اُس لباس کی چمک دمک دیکھنے والوں کو شاید علم اُور احساس بھی نہ ہو کہ اِس ہر ایک موتی کے ساتھ آزادی کے کتنے خواب جڑے ہوئے ہیں۔ شاید اُس کی دستکاری باعث تسکین اُور کلام (خودکلامی) ہے جس کے ذریعے وہ کہہ رہی ہے کہ …… ”اگر میں رہا نہیں بھی ہو سکتی تو کم سے کم میرے ہاتھ کی بنے ہوئے شاہکار تو رہائی پا سکتے ہیں اُور دیکھو میرے ہنر کو قید نہیں رکھا جا سکتا۔“ صحافتی زندگی میں کئی مرد و خواتین دستکاروں سے ملاقات ہوئی لیکن کوئی بھی ایسا ’مجرم دستکار‘ نہیں دیکھا جس کی اُنگلیاں سے آزادی کے خواب ٹپک رہے ہوں۔ دن رات بلاتھکان دستکاری کرنے کی وجہ سے اُس کی بصارت قدرے کمزور ہو چکی تھی کہ اب اُسے نزدیک پڑی اشیا ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتی تھیں لیکن چونکہ ایک ہی جیسا کام کرنے کا تجربہ صرف سات پر محیط نہیں بلکہ جب ہر دن سال جتنا طویل ہو اُور کوئی اکیس ہزار سے زیادہ دن جیل میں بسر کر چکا ہو تو سزا کا دورانیہ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جیل میں خواتین کو علاج معالجے کی سہولیات بشمول طبی معائنے کا قواعد کی رو سے حق تو حاصل ہے لیکن یہ حق ہر کسی کا حق (استحقاق) نہیں ہوتا۔ وہ اپنی عمر کا بہترین وقت قید میں بسر کر چکی تھی اُور جاری قید کے دوران اپنے اُور اپنے بچے کے اخراجات پورا کرنے کے لئے اُسے دن رات دستکاری (محنت) کرنا پڑ رہی تھی۔ کیا یہ بات لکھنے کی ضرورت ہے کہ قیدخانوں کی اِس آبادی کو اپنی محنت کا صلہ کس قدر ملتا ہوگا یا اگر کوئی قیدی اپنی محنت کی کمائی سے کچھ خریدنا چاہے تو اُس بنیادی ضرورت کی بصورت آسائش کتنے ہزار گنا زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہوگی! کیا یہ انکشاف تعجب خیز ہوگا کہ اگر ہر سہولت کی ایک ’قیمت‘ میں کچھ ایسے تقاضے بھی شامل ہوں کہ جنہیں بیان بھی نہ کیا جا سکتا ہو

سیشن کورٹ سے سزا کے بعد ہائی کورٹ نے بھی سزا برقرار رکھی جبکہ ایک بچہ اُس کے ساتھ قید کاٹ رہا تھا اُور شاید یہ بات درست طریقے سے عدالت کو بتائی نہیں جا سکی ہو گی۔ آٹھ سال قید کاٹنے کے بعد اِس قیدی خاتون کی خواہش ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے لیکن جس خاتون کی ملاقات کے لئے سالہا سال سے کوئی نہ آیا ہو تو اُس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ وہ سپریم کورٹ کے کسی وکیل کی منہ مانگی فیس ادا کر سکے گی! انصاف فوری اُور کم قیمت ہونا چاہئے۔ اگر وکیل بالخصوص خاتون وکیل یہ سطریں پڑھ رہی ہو اُور کوئی ایسی نیکی کمانا چاہے کہ جو اُس کی آخرت سنوار سکتی ہو تو اُسے چاہئے کہ ہری پور جیل میں ایک ماں اُور اُس کے ساتھ قیدی بچے سے ملاقات کرے۔

عدل و انصاف کے لئے تشکیل دیئے گئے قوانین و قواعد میں ایک عام مرد یا عورت (ہم عوام) کے لئے اتنی گنجائش تو یقینا موجود ہو گی کہ اُس کی سزا بھی کسی ایک نکتے کی بنا پر معاف کر دی جائے اُور بھلے ہی وہ سزا کاٹنے کی بجائے بیرون ملک نہ جائے لیکن وہ اپنی مایوسیوں و نااُمیدی سے بھری زندگی کے بقیہ سال ”آزادی“ میں بسر کر سکے گی! آزادی بڑی نعمت ہے۔ وقت کے حکمرانوں کو ایسے بدنصیبوں کے بارے میں جاننے کی فرصت یا دلچسپی نہیں تو کیا اِس قابل مذمت فعل کی صرف مذمت کرنا ہی کافی ہوگا؟ آٹھ سال گزر گئے ہیں اُور عمر قید کے اِسی قدر باقی ماندہ سال بھی جیسے تیسے گزر ہی جائیں گے لیکن اِس خاتون قیدی کی کہانی میں ابواب کا اِضافہ ہوتا رہے گا‘ جس سے دنیا نے منہ موڑ لیا ہے حالانکہ وہ کرہئ ارض کی واحد مجرمہ نہیں! صنف ِنازک سے سرزد ہونے والے کسی جرم کے کردہ و ناکردہ محرکات اپنی جگہ لیکن اُس کی کاٹی ہوئی سزا‘ پشیمانی اُور احساس جرم کے بڑھنے کے ساتھ سزا کم ہوتی چلی جانی چاہئے۔

……

کیٹگری: شبیر حسین امام