خودمختار ریاست : خودمختار پولیس

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

خودمختار ریاست : خودمختار پولیس

پولیس کا ادارہ معاشرے میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اہم اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ قوانین کے نفاذ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریاست نہ صرف عوام کے حقوق اُور شہری آزادیوں کی خلاف ورزی سے باز رہنے کی پابند ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا غلط استعمال روکنے اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کی بھی پابند ہوتی ہے۔ ایک خود مختار ریاست‘ خود مختار پولیس ادارے کے بغیر یہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی۔ امن و امان برقرار رکھنے میں پولیس ہمیشہ صف اوّل میں رہتی ہے‘ جس کا کام جرائم کی روک تھام کے علاو¿ہ جرائم کے ارتکاب کی صورت انصاف کی فراہمی کے لئے تفتیش ہوتی ہے۔ امن و امان کو برقرار رکھنے اور آئین میں بیان کردہ بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ مو¿ثر اور خود مختار پولیسنگ قانون کی حکمرانی کی ضامن ہوتی ہے جس سے امن قائم ہوتا ہے۔ پولیسنگ قانون کا بلاامتیاز اطلاق کرتی ہے جس سے قوانین کا رعب دبدبہ اُور ریاست کی عملداری قائم ہوتی ہے جو جرائم کے ارتکاب کے خلاف روک تھام کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے فیصلہ سازوں نے کبھی بھی پولیس کے اِدارے کو اِس حد تک خودمختار نہیں ہونے دیا کہ ایک تو اِس میں مداخلت کا خاتمہ ہو اُور دوسرا ایک ایسا ماحول قائم ہو جس میں پولیس کے ادارے کو پھلنے پھولنے اور آزادانہ سانس لینے کا موقع ملے۔

ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں صوبائی حکومتوں نے ’خاص‘ قانون سازی کے ذریعے کوشش کی کہ وہ پولیس کے اِدارے میں حاصل اِختیارات کے استحقاق کو برقرار رکھے یا اِس میں اِضافہ کرے۔ اِس سلسلے سندھ حکومت کی مثال دی جا سکتی ہے جس نے پولیس ایکٹ 1861ء اور پولیس آرڈر 2002ءمیں ترمیم کرکے پولیس کے ادارے پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی ایک سے زیادہ مرتبہ کوشش کی ہے۔ پولیس آرڈر 2002ءسے پہلے پولیس ایکٹ 1861ءپولیس ادارے کی انتظامیہ سے متعلق امور کی نگرانی کے لئے نافذ تھا جبکہ پولیس ایکٹ 1861ءکو 2002ءکے آرڈر کے ذریعے منسوخ کردیا گیا اور کمانڈ کی خودمختاری اور پولیس کو حاصل آپریشنل کاروائیوں کی آزادی میں اہم تبدیلیاں کی گئیں تاہم سندھ حکومت نے 2002ء کے پولیس آرڈر کو منسوخ کر دیا اور 1861ءمیں قانون سازی کے ذریعے سابق ایکٹ 2011ءکو بحال کر دیا اُور اِسے بھی ناکافی سمجھا گیا اُور حکومت نے 2019ءمیں ایک بار پھر ترمیمی قانون منظور کیا‘ جس نے پولیس آرڈر 2002ءکو بحال کیا لیکن چند تبدیلیوں کے ساتھ جو تبادلوں‘ تعیناتیوں اور تقرریوں کے معاملے میں پولیس ادارے پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لئے حکومت کی ترجیحات کے مطابق تھیں۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس نے پولیس کمانڈ اور اس کے آپریشن کی خود مختاری کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ نے جبران ناصر بمقابلہ ایف او پی اور دیگر کے نام سے ایک فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے پولیس ادارے کی خودمختاری اور حکومتی اثر و رسوخ سے آزادی کے بارے میں اپنے سابقہ نقطہ نظر کا اعادہ کیا۔ عدالت نے اپنے سابقہ فیصلے جو کہ کرامت علی کیس تھا کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایک ایسے پولیس ادارے کے لئے جس کا افسر بغیر کسی اثر و رسوخ کے کام کر سکے‘ ان کی مدت کار متعین ہو اور انہیں اکثر تبادلوں کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ کسی بھی صوبے کے پولیس حکام سے بات چیت کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ سیاسی فیصلہ سازوں کی بات نہ ماننے والوں کے تبادلے کر دیئے جاتے ہیں اُور یہ تبادلے ہر اعلیٰ پولیس اہلکار کے سر پر لٹکنے والی تلوار ہوتی ہے۔

پولیس قواعد میں ایسی ترامیم بھی کی گئیں جن کے ذریعے پولیس کے صوبائی سربراہ (انسپکٹر جنرل آئی جی) پولیس کے کردار کو ثانوی حیثیت میں تبدیل کردیا گیا تھا اور پولیس افسران کے تبادلے‘ تقرر اور تعیناتی سمیت مختلف معاملات میں وزیراعلیٰ کے کردار کو مرکزی بنا دیا گیا تھا۔ کوئی بھی محکمہ اُس وقت تک فعال انداز میں نہیں چلایا جا سکتا جب تک اُس کی سربراہی اُسی محکمہ کے انتظامی سربراہ کو نہ سونپی جائے جو پولیس کو زیادہ بہتر طریقے اُور منظم انداز سے چلا سکتا ہے۔ عدالت نے محکمہ¿ پولیس میں سیاسی مداخلت سے متعلق ترامیم کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا اور متنبہ کر رکھا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے وہ دن ختم ہو چکے ہیں جب پولیس کا مقصد گورنر اُور برطانوی راج کی خدمت کرنا ہوتی تھی اور حکمران پولیس کا استعمال عام لوگوں کو دبانے کے لئے کرتی تھی۔

ریاست کے اندر مؤثر پولیسنگ کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کا ادارہ اپنے آپریشن‘ فنکشن اور انتظامیہ میں آزاد اور خود مختار ہو۔ پولیس کے ادارے پر کوئی بھی بیرونی اثر و رسوخ انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ اُور قانون کی حکمرانی کو بڑی حد تک عملاً متاثر کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا معیار خطے کے ممالک سے بھی کم ہے۔ پورے جرائم رونما ہونا تعجب خیز نہیں لیکن اگر جرائم کی سزائیں نہیں مل رہیں تو اِس بات پر ضرور تعجب اُور افسوس کا اظہار کرنا چاہئے۔

پاکستان میں سزاؤں کا تناسب بمشکل ’دو فیصد‘ ہے اُور جرائم میں اگر سزائیں نہیں ہو رہیں تو اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس کا تفتیشی طریقہ کار جرائم کی گھتیاں سلجھانے کے لئے ناکافی ہے۔ اِس اَفسوسناک صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس آزاد اور خودمختار پولیس ادارے کا فقدان ہے۔ ایک ایسے ادارے کا فقدان جو کسی بھی اثرورسوخ سے آزاد ہو کر کام کر سکے‘ چاہے وہ سیاست دان ہوں‘ تاجر ہوں‘ افسر ہوں یا دیگر بااثر اشخاص‘ لہٰذا اِس بات کی وکالت ہونی چاہئے کہ پاکستان میں ایک خود مختار پولیس ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے‘ جس میں پولیس افسروں اُور دیگر اہلکاروں کے تبادلے‘ تقرریاں اور تعیناتیاں سیاسی مداخلت (ایگزیکٹو آڈرز) کے ذریعے نہیں بلکہ کسی بھی خارجی اثر و رسوخ کے تابع فرمان نہ ہو بلکہ پولیس کے فیصلے داخلی طریقۂ کار (میکانزم) کے ذریعے طے ہونے چاہیئں۔
....