بچوں کے حقوق

اگر ہماری زیادہ تر پریشانیوں کا کوئی ایک حل ہے تو وہ یقینی طور پر ”معیاری تعلیم“ ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک ماہ قبل اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں ایک بار پھر اس معاملے کو اٹھایا۔ ڈاکٹر اے ایچ نیر‘ حارث خالق‘ نسرین اظہر‘ سینیٹر سحر کامران اور زہرہ ارشد جیسے مقررین کے ساتھ تقریب کے شرکاء نے پاکستان میں بچوں کے تعلیم کے حق کو برقرار رکھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ڈاکٹر اے ایچ نیر ممتاز ماہر تعلیم اور معیاری تعلیم کے علمبردار ہیں۔ تقریب کے دوران انہوں نے کہا کہ تیرہویں ترمیم کو اٹھارہ سال گزر چکے ہیں جس میں آئین میں آرٹیکل پچیس اے کو شامل کیا گیا جس میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو لازمی تعلیم کی ضمانت دی گئی لیکن اس کے باوجود صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آرٹیکل پچیس اے کہتا ہے کہ ”ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طرح مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کے ذریعہ کیا جائے۔“ یہاں مسئلہ مذکورہ شق کے آخری چند الفاظ میں نظر آتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”جس کا تعین قانون کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے“ یہ الفاظ مبہم ہیں اور گزشتہ تیرہ برس میں آنے والی حکومتوں کو اس بنیادی حق پر عمل درآمد نہ کرنے کے لئے اِن الفاظ کی وجہ سے چھوٹ ملی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام صوبوں کو اپنے اپنے دائرہئ اختیار میں بچوں کے تعلیم کے حق کا خاکہ پیش کرنے کے لئے صوبائی ایکٹ منظور کرنے میں تقریباً سات سال لگے۔ ڈاکٹر نیئر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں قومی اسمبلی نے ہی علاقے کے حوالے سے پہلا قانون ’آئی سی ٹی: مفت اور لازمی تعلیم کا حق ایکٹ 2012ء‘ منظور کیا تھا۔ سندھ ایسا پہلا صوبہ تھا جس نے ’بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کے حق کا قانون 2013ء‘ نافذ کیا لہٰذا پیپلزپارٹی کو نہ صرف اٹھارویں ترمیم متعارف کرانے بلکہ آئی سی ٹی اور سندھ ایکٹ بھی پاس کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ اس کے فوراً بعد مسلم لیگ (نواز) اور بلوچستان میں نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت نے ’بلوچستان لازمی تعلیم ایکٹ، 2014ء منظور کیا اور پنجاب میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت نے ’پنجاب مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2014ء‘ منظور کیا۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف حکومت اس معاملے میں سب سے سست رہی اور کافی تاخیر کے بعد سال دوہزارسترہ ’خیبر پختونخوا مفت لازمی پرائمری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ایکٹ 2017ء منظور کیا گیا۔ ڈاکٹر نیئر نے تمام صوبائی قوانین کا جائزہ پیش کیا کیونکہ ان میں ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنے اور اسکولی تعلیم مکمل کرنے کے لئے لازمی داخلہ اور حاضری کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ کچھ قوانین اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ پسماندہ بچے کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور اسے تعلیم حاصل کرنے اور مکمل کرنے سے روکا جائے لیکن کسی بھی وفاقی اور صوبائی حق تعلیم کے قانون میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ملک میں کوئی چائلڈ لیبر نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ مفت نصابی کتب کی فراہمی کا ہے جسے زیادہ تر صوبائی حکومتیں بروقت پورا نہیں کر رہی ہیں۔ تعلیمی سال کے آغاز کے بعد یہ کتابیں یا تو کافی تعداد میں چھپی نہیں جاتی ہیں یا بہت دیر سے شائع کی جاتی ہیں۔  ڈاکٹر نیئر نے تعلیمی اداروں کے کردار کو سراہا جو زیادہ تر دیہی سکولوں کو سکول نہ جانے والے بچوں کو سکول میں لانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً پنتالیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ نیشنل ایجوکیشنل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (این ای ایم آئی ایس) کے اعداد و شمار میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ تعداد سکول جانے کی عمر کے گروپ کی کل تعداد کا بتیس فیصد بنتی ہے سب سے زیادہ سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح بلوچستان میں ہے جہاں بچوں کی کل آبادی کا چوون فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں سندھ بھی پیچھے نہیں جہاں سکول جانے کی عمر کے چوالیس فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ اقوام متحدہ کے وضع کردہ پائیدار ترقی کا ہدف نمبر چار میں جامع اور مساوی معیار کی تعلیم کو یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔ تعلیم جامع اور مساوی ہونی چاہئے یہ دو ایسی خصوصیات ہیں جن کی پاکستان میں تعلیمی نظام میں کمی ہے۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)