اور جب فرق مٹ گیا۔۔۔

بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ ” حرص بُری بلا“ ہے یہی وہ بلا ہے جس کا شکار ہو کر آج مہذب انسان نے حسین دنیا کا حلیہ بگاڑ دیا قدرتی ماحول جاتا رہا اور یوں گرمی کی شدت ماحولیاتی کثافت کی اکثریت اور ہریالی کے فقدان سے موسمیاتی تبدیلی نے جنم لیا‘ یہ ایک فطری خاصہ یا تقاضا ہے کہ جب آفت پڑ جاتی ہے تو انسان کے ذہن میں فوری طور پر یہ بات گردش کر لیتی ہے کہ آفت یا مصیبت کہاں پر ہے‘ یعنی ان کے نزدیک واقع ہوئی ہے یا دوری پر ہے؟ 
مطلب انسان کو اپنے بچاﺅ کی فکر لاحق ہو جاتی ہے ‘یہ بات بھلانے کی نہیں کہ آج سے تقریباً تین عشرے قبل جب راقم حیات آباد سے آتے ہوئے اسلامیہ کالج کے پہلے تاریخی گیٹ سے یونیورسٹی میں داخل ہو تا تو جون جولائی میں بھی محسوس کر لیتا کہ درجہ حرارت دو تین درجہ کم ہوگیا ہے اور اب؟ 
 اب تو اس کے باوجود کہ پشاور یونیورسٹی میں طلباءکی تعداد30ہزار تک بڑھانے کا ٹارگٹ ابھی حاصل نہیں ہوا ہے لیکن یونیورسٹی کیمپس اورپشاور شہر کے ماحول میں پایا جانے والا فرق مکمل طور پر معلوم ہوگیا ہے اس کی وجوہات ڈھکی چھپی نہیں بلکہ بالکل واضح ہیں‘ میں نے پنجاب یونیورسٹی اور اس کے متعدد کیمپسز سمیت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کو دیکھا ہے مگر کہیں پر یہ نہیں دیکھا کہ یونیورسٹی کے اندر اڈے قائم ہوں‘ رکشے چل رہے ہوں۔
 ٹیکسی گاڑیوں کی بھرمار ہو اور ان میں نصف سے بھی زائد گاڑیاں قابل استعمال ہی نہ ہوں ‘مارکیٹوں میں تہہ بازاری عروج پر ہو ‘کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کئی کئی روز پڑے رہے ہوں اور داخلی اور خارجی ہلڑ بازی کی انتہا ہو‘ ان سطور میں یونیورسٹی کیمپس کے ہر حوالے سے منفرد ماحول کی اس طرح دیدہ دلیری سے ہونے والی بربادی کو ایک نہیں سینکڑوں مرتبہ اجاگر کرتے ہوئے تنقید برائے اصلاح کی کوشش کی گئی ہے مگر کچھ بھی نہ بن سکا کیونکہ انتظامیہ کے کان پرجون تک نہیں رینگتی اب ایسے میں ماحول تباہی سے ہمکنار نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ کیمپس کے مضافات نے اسکے باوجود یونیورسٹی کیمپس کو آنے جانے کا شارٹ کٹ راستہ بنا دیا ہے کہ ان کیلئے یونیورسٹی کا روڈ نمبر1یا لیبارٹری روڈ موجود ہے‘ اگرچہ مذکورہ روڈ بھی کیمپس کاہی حصہ تھا مگر وہ بھی جاتا رہا باعث حیرت امر یہ ہے کہ ناقابل استعمال گاڑیوں کے ہاتھوں یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کی بربادی کا تاحال صوبائی حکومت نے نوٹس لیا ہے اور نہ ہی کیپٹل ٹریفک پولیس اسے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے‘ ٹوسٹروک ممنوعہ رکشوں ‘چالیس سالہ پرانی پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں اور غیر قانونی ٹیکسیوں کی بھرمارنے نے ایک حسین اور پرسکون تعلیمی ماحول(ماضی کا) کو غارت کرکے رکھ دیا مگر حکومت پولیس اور کیمپس انتظامیہ کے جاگنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تیز رفتار‘ انتظامی اور تدریسی احاطوں تک رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کی رسائی‘ پروفیسروں اور افسران کے گھروں کی دہلیز پر اڈے گرلز ہاسٹلوں کے سامنے رکشوں اور ٹیکسی گاڑیوں کے سٹینڈ‘ ون ویلنگ سکریچنگ اور ریس روز کا معمول بننا جبکہ مضافات کی ٹریکٹر ٹرالیوں‘ تانگوں‘ مال بردار سوزوکیوں اور گدھا گاڑیوں کا بھی یونیورسٹی کے روڈ نمبر2سے ہو کر گزرنا ‘مگر انتظامیہ کی آنکھوں سے پٹیاں کھولنے والا کوئی نہیں۔