حفظ ماتقدم کی ضرورت

کسی بھی علاقے شہر یا گاﺅں محلے میں جب کوئی وباءپھیل جاتی ہے تو انسانی خطرات کے ایک خاصے کے طور پر ہر کسی کو اپنی فکر لاحق ہو جاتی ہے اگر کسی کی سوچ وفکر اور عمل اس کے برعکس ہو تو لازمی طور پر نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ‘موجودہ دور کے مسائل اور مصائب میں آج کے انسان کے ہاتھوں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے منفی اثرات کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا جاتا ہے‘ باعث فکر وتشویش اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس حالت میں بڑا ہاتھ ان ممالک یا اقوام کا ہے جو اپنے آپ کو ترقی پسند مہذب اور ترقی یافتہ کہہ رہے ہیں موسمیاتی تبدیلی کی ایک واضح مثال وہ گھمبیر حالت ہے جس سے ہم سال 2022ءمیں حد اور ضرورت سے زیادہ بارشوں اور گلیشیئر ز کے پگھلنے کے سبب سیلابوں سے بری طرح متاثر ہوئے کم از کم دوہزار لوگ لقمہ اجل بنے جبکہ بنیادی ڈھانچے کی بربادی کے ساتھ زراعت اور لائیو سٹاک کی تباہی کے سبب اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق کم از کم 30 ارب ڈالر اقتصادی نقصان سے دو چار ہو گئے اور یوں امداد کیلئے دوسروں کے آگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہو گئے جواب طلب امر یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی آخر واقع کیوں ہو رہی ہے؟ یعنی درجہ حرارت یا گرمی بڑھنے کے اسباب کیا ہیں؟ کیا بڑھتی ہوئی بے ترتیب بلکہ بے ہنگم آبادی کے ہاتوں بیسیوں ماحولیاتی مسائل اور امراض نے جنم نہیں لیا؟ کیا زراعت ‘باغات ‘سبزہ زاروں اور جنگلات کی جگہ شاپنگ پلازوں،مارکیٹوں، ورکشاپس کالونیوں جبکہ گاڑیوں کی بھرمار نے نہیں لی؟ جن میں نصف سے زائد قابل استعمال بھی نہیں ہوتیں‘ باعث تشویش امر ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے بلکہ وادی پشاور کے سب سے زیادہ پرسکون تعلیمی مقام یونیورسٹی کیمپس اس سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ کوئی پوچھ ہے نہ گچھ اور نہ ہی کوئی روک ٹوک ‘یہ سب کچھ محض پیسہ کمانے کی حرص کے ہاتھوں ہم نے اپنے اوپر مسلط کر دیا ہے ۔ماضی قریب کی بات ہے کہ شہر اور دیہات کے درمیان ایک واضح فرق ہوا کرتا تھا جوکہ اب نہیں رہا آپ کسی بھی شہر سے کسی بھی دیہی علاقے کی طرف نکلیں تو دوسرے شہر پہنچنے تک درمیان میں آپ کو دیہی علاقے کے کوئی آثار اور مناظر نظر نہیں آئیں گے ‘باعث حیرت امر تو یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی کیمپس میں چلنے اور ٹھہرنے والی پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں‘ ناقابل استعمال بلکہ ممنوعہ رکشوں میں سے زیادہ تر قابل استعمال ہی نہیں مگر ایسا کوئی بھی سامنے نہیں آتا کہ ان سے فٹنس سرٹیفیکیٹ طلب کر ے‘ مبینہ طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں ایک خاص تعداد یونیورسٹی کے چند ریٹائرڈ ملازمین اور زیادہ عرصہ کیمپس میں تعینات رہنے والے چند پولیس اہلکاروں کی ہے اگر ایسابھی ہو تو کیا ایسے لوگ قاعدے ضابطے سے بالاتر اور ماحول دشمنی کے لئے آزاد ہیں؟ یہ بات باعث تشویش ہے کہ تاریخی درسگاہ کے مثالی ماحول کی بربادی حکومت بالخصوص پشاور ٹریفک پولیس سے بھی اوجھل ہے؟ کیا یہ پولیس کا فرض نہیں بنتا کہ یونیوسٹی کیمپس آکر ان نا قابل استعمال گاڑیوں اور سینکڑوں رکشوں کے ہاتھوں جن میں ممنوعہ ٹوسٹروک رکشوں کی بہتات ہے ماحول کو مزید بربادی سے بچا لیں؟ ایک ایسی حالت میں جبکہ یونیورسٹی اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین اپنے مسائل اور مطالبات کو لیکر مہینوں تک تو کار بندی پر اتر آتے ہیں مگر ماحول کیبرباری انہیں نظر نہیں آتی۔