ابہامات کی دھند


۔پشاور کی قدرے پرانی جامعات جبکہ قدیم درسگاہ جامعہ پشاور کی انتظامیہ کے مطابق نگران حکومت نے انہیں گرانٹ کی فراہمی کا جو وعدہ کیا تھا اس کے تحت نصف پیسے مل گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ گرانٹ کے حصول کی تگ و دو میں وہ عاجز آ گئی ہیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی دو ٹوک بات سامنے نہیں آئی‘ لہٰذا اب وقت کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ یقین میں تبدیل ہو رہا ہے کہ ایک بار پھر کنگال پن کے ہاتھوں ملازمین کو تنخواہیں نہ ملیں اور وہ سڑک پر جا کر بیٹھ جائیں۔ اگرچہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سال رواں کے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ ملازمین کا قانونی حق اور اس کی ادائیگی کے لئے گرانٹ کی فراہمی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے مگر نہ جانے کہ یونیورسٹی ملازمین اپنے قانونی حق سے محرومی کے باوجود قانون سے رجوع کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر اس گھمبیر مسئلے کا کیا حل نکل آتا ہے؟ اسی طرح کم از کم پشاور یونیورسٹی کے انتظام و انصرام کا مسئلہ بھی درپیش ہے‘ مطلب 
انتظام یا انتظامیہ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اس وقت تو حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ بازار جنرل بس سٹینڈ یا جمرود روڈ اور یونیورسٹی کیمپس کے مابین کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ پولیس کہتی ہے کہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کام ہے جبکہ انتظامیہ کا شکوہ ہے کہ پولیس بالکل تعاون نہیں کر رہی‘ لہٰذا ایسے میں ٹو سٹروک رکشوں‘ ٹیکسی اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں جبکہ ریس سکریچنگ اور ون ویلنگ کرنے والے ہلڑ بازوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ تعلیمی ماحول ماضی کا قصہ پارینہ بن گیا ہے اور سیاست بازی عروج پر ہے‘ انتظامیہ کہتی ہے کہ انتظام و انصرام کے لئے مطلوبہ سکیورٹی گارڈز سے یونیورسٹی محروم ہے اور وہ اس لئے کہ حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے حالانکہ انتظامیہ نے تو 70 سکیورٹی گارڈز کی بھرتی کے تمام مراحل 
لکھ کردیئے ہیں‘ اب یہ بات یقین اور وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ انتخابات کو بنیاد اور جواز بنا کربھرتی‘ تبادلے اور تقرری پر جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ کب تک برقرار رہے گی؟ اسی طرح تیسری بے یقینی اور ابہام صوبے کی 19 جامعات کے نئے وائس چانسلروں کی تقرری کے معاملے میں بھی سامنے آ گیا ہے حالانکہ سرچ کمیٹی نے اپنا کام 2 فروری تک مکمل کر لیا ہے لیکن وائس چانسلر شپ کے بعض امیدواروں کے قریبی ذرائع اب شکوک و شہبات اور بے یقینی بلکہ بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ سرچ کمیٹی کی طرف سے نامزد کردہ امیدواروں کی فہرست پر پانی پھر جائے اور آنے والی حکومت اپنے اختیارات اور صوابدید کے تحت وائس چانسلروں کی تقرری کا کام از سر نو شروع کروادے‘ بہرکیف اس وقت کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ متذکرہ بالا مسائل اور معاملات کی فضا اور ماحول میں ابہام اور بے یقینی کی گہری دھند چھائی ہوئی ہے البتہ یہ بات بے جا نہ ہو گی کہ خیبر پختونخوا کی پرانی جامعات کے روشن مستقبل کی توقع رکھنا ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔