جامعات کی استقامت: کب تک؟

قدیم درسگاہ جامعہ پشاور کے شعبہ مالیات نے معروضی حقائق اور ناگزیر ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مالی سال2023-24ءکا بجٹ بنا کر یونیورسٹی کی مجازباڈی سینیٹ کے سامنے رکھ دیا مگر سینیٹ کے حکومتی اراکین نے یہ کہتے ہوئے بجٹ کو نظرثانی کیلئے واپس کر دیا کہ اربوں کا خسارہ کم کیا جائے اب یہ بات نہایت ہی عجیب و غریب لگتی ہے کیونکہ خسارے کو آخر کم کیسے کیا جائے؟ ایسے میں شعبہ ٹریژری کے اس وقت کے سربراہ کی یہ بات بالکل بجا تھی کہ خسارے کم کرنے کا تو ان کے نزدیک محض یہ طریقہ ہو سکتا ہے کہ حکومتی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کو بند کر دے تو خسارہ خود بخود ختم ہو کر بجٹ سرپلس ہو جائے گا‘ اگرچہ مالی ابتری یا بجٹ خسارہ ہر یونیورسٹی کا اولین بلکہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے مگر جامعہ پشاور اس لئے قدرے زیادہ متاثر ہے کہ یہاں پر ملازمین کی تعداد دوسری جامعات سے کہیں زیادہ ہے‘ اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم اور جامعات کو اپاہج بنا دیا ہے‘ تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافے کی بجائے بتدریج کٹوتی‘ ہر سالانہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ مگر جامعات کیلئے محض اعلان تک محدود‘ مطلب اضافے کی ادائیگی کیلئے یونیورسٹیوں کو اضافی گرانٹ سے محروم رکھنا بلکہ یہاں تک کہ جو بجٹ یا گرانٹ پہلے سے مختص تھی اس کی فراہمی میں بھی حددرجہ لیت و لعل اور کٹوتی معمول بن گئی ہے مطلب جامعہ کو جب40کروڑ کی ضرورت ہو تو کئی مہینے بعد اس کے نصف رقم ملتی ہے‘ ایسے میں اگر جامعہ خسارے کا بجٹ نہ بنائے اور ملازمین کو تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی مقررہ وقت پرنہ ہو سکے تو کیا کرے؟ جہاں تک الاﺅنسز یا مراعات کا تعلق ہے تو سمجھ لیں کہ وہ تو عرصہ ہوا کہ برائے نام رہ گئے ہیں‘ غور طلب امر یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی نے مالی سال2023-24 کے لئے پانچ ارب روپے سے زائد بجٹ میں دو ارب روپے محض توقعات کی بنیاد پر اپنی آمدنی ظاہر کر دی ہے‘ اب کوئی یہ تو ذرا بتا دے کہ باقیماندہ تین ارب کہاں سے آئینگے؟ دوسری جانب ملازمین کی طویل تالہ بندیاں‘ ریلیاں اور دھرنے جبکہ اس عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے کیساتھ ساتھ ملازمین کے کرتا دھرتا کا یہ موقف کہ یونیورسٹی چلانے کیلئے گرانٹ کا حصول وائس چانسلر‘ رجسٹرار اور ٹریژرر کی ذمہ داری ہے ‘کہاں تک درست معلوم ہوتا ہے؟ یا کس حد تک کار آمد ثابت ہو سکتا ہے؟ باعث حیرت امر یہ بھی ہے کہ جب بجٹ میں جامعات کیلئے مطلوبہ پیسہ نہیں رکھا جاتا تو پھر سرکاری ملازمین کا نام لیکر ان کی تنخواہوں‘ پنشن اور الاﺅنسز میں اضافے کے محض اعلان کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مالیات کے وزیر اپنی بجٹ تقریر میں صاف لفظوں میں کہہ دیں کہ ان میں یونیورسٹیوں کے ملازمین شامل نہیں ہیں کیونکہ یہ خودمختار؟ ادارے ہیں‘ لہٰذا اپنا بندوبست خود کرینگے کیا یہ امر جواب طلب نہیں کہ حکومت نے مالی سال2022-23 کے بجٹ میں جس اضافے کا اعلان کیا تھا وہ پندرہ فیصد تنخواہ جبکہ پندرہ فی صد پنشن اضافہ ایک سال تک یونیورسٹیوں کے ذمے کیوں واجب الادا رہا؟ اس لئے کہ مالی سال گزرنے کے باوجود اضافے کی ادائیگی کیلئے گرانٹ نہیں دی گئی ایسے میں خدشے بلکہ خطرے کی گھنٹی تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے آپ کو گرانٹ کی فراہمی سے بری الذمہ قرار دیا جبکہ قدیم درسگاہ کے ملازمین 35 فیصد 30فیصد اور17.50 فیصد بالترتیب تنخواہوں اور پنشن میں ہونیوالے اضافے کے حصول کے لئے61 روز تک سڑک پر بیٹھے رہے اور اب ایک بار پھر وہی حالت طاری ہونے والی ہے کیونکہ یونیورسٹی اس بھاری بھرکم اضافے کی ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں۔