کیمپس کی شٹل سروس

سنا ہے کہ یونیورسٹی میں الیکٹرک شٹل سروس شروع کردی گئی ہے‘ بجلی تو خیر نہیں ہے ‘البتہ بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں ہوں گی‘ فی الوقت تو ابتدائی طور پر دو یا تین گاڑیاں ہیں جبکہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اس کی تعداد10اور پھر20تک پہنچانے کا ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے‘ اگر یہ سچ ہو اور ایسا ممکن ہوا تو پھر شہر بھر کے2سٹروک ماحول دشمن رکشوں کا کیا بنے گا؟ جنہوں نے یونیورسٹی کیمپس جیسی ماضی کی ایک خوبصورت صاف ستھری اور پرسکون جگہ کو اڈے میں تبدیل کرکے آماجگاہ بنالیا ہے ‘کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں رکشوں کی تعداد200 سے تجاوز کرگئی ہے ‘غیر قانونی پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیوں نے رکشوں سے مل کر گرلز ہاسٹلوں کی دہلیز پر جبکہ پک اینڈ ڈراپ والوں نے یونیورسٹی کے پروفیسروں اور افسران کے بنگلوں کی دہلیز پر قبضہ جما رکھا ہے حالانکہ ان سے یہ معاہدہ بالکل نہیں ہوا ہے کہ انہیں پارکنگ بھی یونیورسٹی فراہم کرے گی اور نہ ہی یہ بات طے ہے کہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے گاڑی کھڑی کرکے کیمپس میں گھوم پھر کر سیر کرینگے جہاں تک الیکٹرک شٹل سروس کا تعلق ہے تو اللہ بھلا کرے پاکستان ایوربرائٹ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن(پیڈو) کا کہ انہوں نے یونیورسٹی کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا تاہم اس کی کامیابی میں ایک شبہ اور بے یقینی کی کیفیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ایک تو فی الوقت ان کا روٹ انتہائی مختصر ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا کرایہ پیوٹا فاﺅنڈیشن کی ٹھیکیداری سسٹم کے تحت چلنے والی گاڑیوں سے زیادہ ہے‘ ساتھ ہی ناموافق موسم یعنی بادوباران اور آندھی سے سواریوں کے تحفظ کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے۔ جامعہ کے ایک انتظامی افسر کو کسی نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارا سسٹم وہ محض تین دن میں ٹھیک کر سکتا ہے مگر انہوں نے نفی کے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ اصل بات رقم کی ہے انتظامیہ کے بڑوں کا اصرار ہے کہ آمدنی بڑھانا ناگزیر ہے ‘مطلب یہ کہ یونیورسٹی کیمپس جو جنرل بس سٹینڈ میں تبدیل ہو گیا ہے اس کی وجہ پیسے کا حرص ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو ماضی کے اس حسین مقام کو مزید بربادی سے صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے‘ ادھر چھ سو سے زائد اساتذہ بھی نہایت آرام سے بیٹھے ہوئے تماشہ کر رہے ہیں‘ حالانکہ کیمپس میں تعلیمی ماحول کی بحالی اور ہر نوعیت کی قانون شکنی اور ہلڑ بازی کا خاتمہ انتظامیہ کیساتھ ساتھ ان کی بھی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے‘ ابھی ماضی قریب ہی کا واقعہ ہے کہ یونیورسٹی ملازمین جب اضافی تخواہ کیلئے چوراہوں میں بیٹھے جوشیلی تقاریر کرتے رہے تو تالیاں بجانے والوں میں سب شامل تھے درحقیقت المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اپنائیت یا اونر شپ کا احساس اپنی موت آپ مر چکا ہے جبکہ حقوق اور فرائض میں تعاون دور دور تک بھی نظر نہیں آرہا ورنہ یونیورسٹی کیمپس کا ماحول اس قدر بربادی سے ہمکنار نہ ہوتا‘ اب تو خیر سے رمضان بھی شروع ہوگیا ہے لہٰذا اس بات کا اندازہ اس امر سے نہایت آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں میں حقوق اور فرائض میں توازن کا احساس کس حد تک زندہ ہے ہمارے نزدیک توحقوق کیلئے واویلا ایسے لوگوں کو بالکل بھی زیب نہیں دیتا جو فرائض کی پاسداری کا ذرا بھر احساس نہیں رکھتے اگر احساس جاگ اٹھے‘ حقوق اور فرائض میں توازن قائم ہو اور خود احتسابی اور جو اب دہی کا نظام رائج ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یونیورسٹی کیمپس میںماضی کی طرح ایک حقیقی تعلیمی نظام قائم نہ ہو جائے ‘یہ سب کچھ نہ صرف ممکن بلکہ نہایت آسان ہے بشرطیکہ اس سلسلے میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرناہوگا۔