معاشی مسائل کا حل : متبادل اقدامات

وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے بڑا پروگرام لینا پڑے گا۔ وہ اس بات کے لیے بھی پر امید ہیں کہ مہنگائی کے ساتھ شرح سود میں بھی کمی آئے گی۔ دوسری بات ہو سکتا ہے کہ بینکار اس بات پر مطمئن ہوں کہ 2023 میں بینکوں کے خالص منافع میں 86 فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بلند شرح سود ہے۔

بات یہ ہے کہ ملک کو تو بدترین معاشی حالات درپیش تھے اور ہیں اور بہت جلد ٹھیک ہونے کے امکانات پیدا نہیں ہوئے لیکن ان سب کے باوجود بینکوں نے 572 ارب روپے کما لیے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات بھی ہو سکتی ہے اورکم ازکم آئی ایم ایف کے سامنے فخر بھی کر سکتے ہیں کہ واحد شعبہ ہے جس کا خالص منافع 86 فی صد ہوا ہے۔

اب یہ بالکل الگ بات ہے کہ منافع اتنا زیادہ یعنی دگنے کے قریب اور 572 ارب روپے بینکوں نے کما لیے، لیکن ہماری بگڑی ہوئی، کمزور ترین، نازک حال معیشت کا اور مفلوک الحال بے روزگاری، بھوک و افلاس سے بدحال عوام کو روزگار کے کتنے ہزار مواقع ملے؟ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں کتنا زیادہ اضافہ ہوا؟ البتہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کی جلد آمد سے پاکستان میں معاشی استحکام کی آمد کوکچھ ڈھارس ملی ہوگی۔ گزشتہ برس کی ہی بات ہے کہ اکتوبر 2022 سے آئی ایم ایف کی آمد کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔

اس سے کچھ عرصہ قبل ہی جب سری لنکا ڈیفالٹ ہوا تھا تو ڈیفالٹ کا لیبل پاکستان پر چپکانے کی باتیں ہو رہی تھیں جس سے پاکستان کے کاروباری حالات بہت زیادہ بگڑتے چلے گئے اور یوں کئی ماہ کے صبر آزما انتظار کے بعد وفد کی آمد ہوئی اور اس کے کئی ماہ کے بعد معاہدہ طے ہوا اور قسط کی رقم ملی، لیکن اس دوران معیشت بدحال ہوتی چلی جا رہی تھی،شرح سود انتہائی بلند شرح پر تھا، لہٰذا بینکوں نے بھی خوب زیادہ منافع کمایا۔

جب نگران حکومت آئی تو اس کی معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف کے ساتھ خوب جم کر مذاکرات بھی کیے اور جلد ازجلد قسط بھی حاصل کرلی۔ انھی باتوں کا نتیجہ یا عالمی سیاسی معیشت کے کچھ خوشگوار جھونکے پاکستان کی طرف رواں دواں ہوئے ہیں کہ نئی حکومت کی آمد ہوئی اور آئی ایم ایف حاضر ہوگئی۔

بات یہ ہے کہ نئی حکومت چند دن بیٹھ کر تمام معاشی مسئلے مسائل ان کا حل اور دیگر تمام معاملات کا مطالعہ کرکے خوب تیاری کے ساتھ ان سے مذاکرات کریں گے، مذاکرات سے جب فارغ ہو جائیں تو پاکستانی حکومت کو فوری طور پر اس جانب متوجہ ہونا چاہیے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران پاکستان کی کل درآمدات 35 ارب 22 کروڑ30 لاکھ ڈالرزکی رہیں اور کل برآمدات محض 20 ارب 35 کروڑ  10لاکھ ڈالرز کی رہیں۔

اس طرح کل تجارتی خسارہ 14ارب 87 کروڑ20 لاکھ ڈالرکا رہا جسے ہم آیندہ آسانی کے لیے 15 ارب ڈالر مان لیتے ہیں کیا ہم جلد ازجلد اتنی زیادہ سے زیادہ درآمدات کو کم نہیں کر سکتے؟ اگر ایسا کر لیتے ہیں تو اس کے بے شمار فائدے ہیں کہ درآمدی اشیا کا نعم البدل یا ان کا متبادل جوکہ تقریباً انھی خصوصیات کی حامل مصنوعات ہوں ان کی تیاری کی جائے ملک میں استعمال ہونے والی تمام تر اشیا کا غالب ترین حصہ ملک میں ہی تیار کیا جائے۔ چند اشیا کو چھوڑ کر بہت زیادہ درآمدی اشیا کا متبادل پاکستان میں باآسانی تیار کیا جاسکتا ہے۔

حکومت اس پر فوری غور کرے اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر درآمدات کا متبادل ملک میں تیار کرنے اور ملکی عوام کو اس بات پر راغب کرنے پر زور دیتا رہا ہوں کہ کوشش کی جائے کہ پاکستانی ساختہ اشیا خریدی اور بنائی اور استعمال کی جائیں کیونکہ اس طرح ملکی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار حاصل ہوگا۔

معیشت کا پہیہ روانی سے چلے جب لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا اور عوام پاکستانی اشیا کو خریدنے کو ترجیح دیں گے تو کارخانہ داروں کا منافع بھی بڑھے گا اور اس طرح کے منافع کا بڑھنا معیشت کے لیے قدرے سود مند ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے صنعتکار اورکاروباری افراد اپنے منافع سے اپنے کاروبارکو وسیع کرتے ہیں اور انھیں اونچی شرح سود پر قرض نہیں لینا پڑتا۔ اس وقت پاکستان میں شرح سود اونچی ہونے پر ہی بینکوں کا منافع 86 فی صد ہوا ہے جس میں کمی کی توقع ہے۔

حکومت معیشت کا جائزہ لیتے وقت ہر غیر ضروری اور ان درآمدات کا علاج تلاش کرے جوکہ ملک میں تیار ہو سکتے ہیں لیکن پون صدی سے ہم تساہل سے کام لے رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ضرورت کی ہر شے ہم ملک میں تیار نہیں کر سکتے؟ ایران اپنی ضرورت کی ہر شے تیار کر رہا ہے۔ اس کی یہ صنعتی اور دیگر اشیا بہترین زبردست اور معیاری بھی ہیں اس کے ساتھ عالمی تجارت میں بھی مصروف ہے۔

ایران اور چین کی تجارت زوروں پر ہے۔ ایرانی اشیا بھی بلوچستان اور کراچی میں بڑی مقدار میں فروخت ہو رہی ہیں۔ اگرچہ بعض پابندیاں بھی موجود ہیں۔ ہمیں درآمدی ملک سے نکل کر برآمدی ملک کی صف میں جانے کے لیے تقریباً ہر وہ درآمدی شے جو ہم بنا سکتے ہیں اسے بنا ڈالیں اور اگر ہم نہیں بنا سکتے اور ایران وہ مصنوعہ بنا رہا ہے تو ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں۔ بجلی اورگیس کی فروخت کے لیے ایران تیار ہے۔ ایران کے علاوہ اب افغانستان بھی بہت سی اشیا کی تیاری میں مصروف ہے۔