کسی کو افغان سرزمین کے استعمال کی جازت نہیں دیتے لیکن قبول کرتے ہیں کہ بعض علاقے ہمارے کنٹرول میں نہیں، کابل کا اہم بیان : افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بمباری کی غیرمصدقہ اطلاعات

افغانستان میں ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی لیکن ایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان اہلکارپاکستانی سرحد کے قریب بمباری کی تصدیق کرچکے ہیں تاہم واٹس ایپ گروپس میں معاملے پر بیانات سے منع کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر مناسب ہوا تو ترجمان ذبیح اللہ مجاھد اس پر بیان جاری کریں گے۔

پیر کی صبح افغان ذرائع ابلاغ میں ذبیح اللہ مجاہد کا بیان شائع ہونے کے ساتھ ہی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بمباری کی غیرمصدقہ اطلاعات سامنے آئیں۔

ان اطلاعات کی تصدیق فوری طور پر نہیں ہوسکی تاہم اگر اس بمباری کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی چوکی پر دہشت گرد حملے کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہوئی ہے۔

طلوع نیوز کے مطابق پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف علی درانی کے بیان کی تردید کرتے ہوئےذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ، ’ہم افغانستان میں کسی غیر ملکی گروہ کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور کسی کو افغان سرزمین کے استعمال کی جازت نہیں دیتے۔‘

آصف علی درانی نے اپنے بیان میں افغانستان میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 5 سے 6 ہزار لوگوں کو پناہ حاصل ہے۔

تاہم ترجمان طالبان نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہم کسی کو افغان سرزمین پر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن ایک بات ہمیں قبول کرنی چاہیئے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے جہاں پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں۔ اورایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کے نمائند خصوصی برائے افغانستان آصف علی درانی نے یہ بیان پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام ”افغانستان میں امن اور مصالحت: پاکستان کے مفادات اور پالیسی آپشنز“ سیمینار کے دوران دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ، ’اسلام آباد کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے رقم حاصل کر رہی ہے، اندازہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے 5 سے 6 ہزار عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے، مذاکرات کے دوران پاکستان نے کابل میں عبوری حکومت سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے اور گروپ کو غیر مسلح کرنے اور اس کی قیادت کو حراست میں لینے کی ضرورت ہے۔‘

گزشتہ روز وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف دہشت گردی ہورہی ہے، ان دہشت گردوں کو پاکستان میں بھی پناہ گاہیں میسر ہیں،پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا علم ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس کے لیے سب کو متحد ہونا ہو گا۔

سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں فوج کی چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے گذشتہ دورحکومت کے دوران افغانستان سے ہزاروں دہشت گردوں کو پاکستان لایا گیا اور ہمارے سینڑوں لوگوں کے قاتلوں کو معافی دی گئی جس کا خمیازہ ہم ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی صورت بھگت رہے ہیں۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی میرعلی میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پرحملے میں شہید لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی اور کیپٹن محمد احمد بدر کے جنازے میں شرکت کے دوران کہا تھا کہ ، ’ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہم دہشتگردوں جوانوں کے بہائے گئے خون کا خراج لیں گے میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہمارے بیٹوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘

صحافی طاہر خان نے اس سے قبل اسی حوالے سے کی جانے والی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ، ’افغان طالبان کے اہلکاروں نے پاکستانی سرحد کے قریب کئی علاقوں میں بمباری کی تصدیق کی ہے تاہم واٹس ایپ گروپوں میں افغان طالبان کو اس معاملے پر بیانات دینے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا کہ کہ اگر مناسب ہوا تو ترجمان ذبیح اللہ مجاھد اس پر بیان جاری کریں گے۔

ٹویٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی طالبان کے ایک عہدیدار نے بھی بمباری کی تصدیق کی ہے تاہم افغان اور پاکستانی حکام نے سرکاری طور پر تاحال کچھ نہیں بتایا۔ ایک افغان اہلکار کے مطابق عبداللہ شاہ نامی شخص کے گھرکو نشانہ بنایا گیا جووزیرستان کا رہائشی ہے۔ افغان اہلکاروں کے مطابق وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔