یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کو بچانے کی ضرورت

ہمارے پشاور کو پھولوں اور باغات کا شہر کہا جاتارہا مگر اب حالت یہ ہے کہ ملک کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور اور کراچی کے بعد تیسرے نمبر پر ہے‘ اس کی وجوہات غیر واضح نہیں بلکہ ہمارے سامنے ہیں اس امر میں کوئی شک و شبہ اور اختلاف کی گنجائش شاید نہ ہو کہ کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک وہ مثبت تبدیلی کیلئے خود سعی نہ کرے بلاشبہ کہ موسمی تغیرات نے انسانی بقاءکیساتھ ساتھ ہر ذی روح کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کردیا ہے مگر باعث حیرت امر یہ ہے کہ ہم لوگ بلکہ ہم میں سے بڑے خاص قسم کے لوگ اب بھی اس تباہی کو جس سے پاکستان ابھی کچھ عرصہ قبل سیلابوں کی شکل میں دوچار ہوا مون سون کا نام دے رہے تھے یہ ماضی بعید کی بات نہیں بلکہ ابھی تین عشرے قبل تک پشاور شہر اور مضافات کے درمیان ایک واضح فرق ہوا کرتا تھا اور وہ تھا دیہات کے باغات سبزہ زار پھول درخت شفاف پانی کے بہتے ندی نالے اور سب سے بڑھ کر کھیتوں میں لہراتی فصلیں جو کہ ایک بھرپور صحت مند قدرتی ماحول کی نشانی تھیں مگر وہاں پر بے ہنگم آبادی‘ گودام‘ ورکشاپس پلازوں مارکیٹوں غیر ضروری دکانوں اور غیر ضروری گاڑیوں نے قدرتی ماحول کا قلع قمع کردیا ہے صرف یہ نہیں بلکہ حالت بڑی تیزی سے مزید ابتر ہوتی جارہی ہے یہاں تک کہ ماضی کا ایک مثالی حسین مقام یونیورسٹی کیمپس کا ماحول بھی تباہی سے ہمکنار ہوگیا ہے موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات میں تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کی طرف دیکھنا ایک قدرتی امر ہوگا کیونکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قوم کی تربیت اور تعمیر کا فریضہ انجام دے رہی ہیں پشاور یونیورسٹی کیمپس کے تمام تعلیمی اداروں میں سال میں دو مرتبہ شجرکاری کا اہتمام کیاجاتا ہے مگر اب یہ حساب کتاب بلکہ احتساب کون کرے گاکہ سال رواں کی مہمات میں کتنے پودے لگائے گئے کتنے پودوں کی دیکھ بھال ہوگی اور کتنے سوکھ کر صفحہ ہستی سے مٹ جائینگے؟ نیز ان مہمات میں وائس چانسلروں کے افتتاحی پودوں کے علاوہ اساتذہ افسران طلباءطالبات اور ملازمین نے کس حد تک حصہ لیا؟ جبکہ جواب طلب امر یہ بھی ہے کہ مون سون اور بہاریہ مہمات کی بدولت یونیورسٹی کیمپس میں درختوں‘ پودوں‘ پھولوں‘ سبزہ زاروں اور اس کے سبب چرند پرند میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہو تو بات یہی واضح ہو جائیگی کہ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے سبب رونما ہونے والی ماحولیاتی بربادی ہی ہمارا مقدر رہے گی جب قومی تعمیر کے ذمہ دار اداروں یعنی جامعات کی یہ حالت ہو تو پھر دیکھنا ہوگا کہ عوام یا بہ الفاظ دیگر پیسے کو ہر چیز پر ترجیح دینے والی قوم کہاں کھڑی ہے؟ اگر میرا مشاہدہ اور اندازہ غلط نہ ہو تو اس تلخ حقیقت کی نشاندہی اور گھمبیر خدشے سے اظہار میں قطعی طور پر کسی عار کا احساس نہیں ہور ہا کہ قدرتی ماحول کی بحالی کی بدولت موسمیاتی تبدیلی کے سامنے بند باندھنے کے مشن کی انجام دہی میں حکومتوں اور ملک کے دوسرے بلکہ متعلقہ اداروں کی طرح ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی یکسر ناکام نظر آرہے ہیں اس کی ایک واضح مثال یونیورسٹی کیمپس پشاور کا موجودہ ماحول ہے جسے تہہ بازاری بے لگام ٹریفک بالخصوص ناقابل استعمال رکشوں پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں‘ ٹیکسیوں کی بھرمار جبکہ ہر نوعیت کی ہلڑ بازی اور صفائی کی بدترین حالت نے تباہی سے ہمکنار کر دیا ہے اور ذمہ دار لوگ یعنی انتظامیہ‘ پولیس اور اساتذہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ الغرض اگر یونیورسٹی کیمپس کی تمام جامعات بشمول پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ اور خیبرمیڈیکل نے یکجا ہو کر قواعد و ضوابط کے تحت کیمپس کے ماحول کو مزید تباہی سے بچانے کی ذمہ داری کی انجام دہی میں مزید بھی ناکام رہے تو پھر آنیوالے کل کو یونیورسٹی کیمپس کے ماحول کا جو حشر ہوگا اس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اگر تین عشرے قبل جس وقت پشاور یونیورسٹی پورے صوبے کی جنرل یونیورسٹی اور صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد محض چارتھی تو پشاور یونیورسٹی کے ایک ایڈمن افسر اعظم جان لالہ مرحوم نے تن تنہا سب کچھ سنبھالا تھا تو پھر آج کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ کیمپس کا ماحول آئے روز بربادی سے ہمکنار ہوتا جارہا ہے؟۔