حقوق و فرائض میں توازن ناگزیر

جب تک اپنائیت کا جذبہ زندہ نہ ہو اور حقوق و فرائض کے مابین توازن قائم کرنے کا حساس بیدار نہ ہو جائے یونیورسٹی کے ماحول میں تب تک کوئی مثبت تبدیلی واقع نہیں ہوگی‘ المیہ دراصل یہ ہے کہ یونیورسٹی کو اپنا مال و ملکیت کوئی بھی نہیں سمجھتا ورنہ ماحول اس قدر دگرگوں نہ ہوتا‘ اب بھی وقت ہے کہ یونیورسٹی کے وجود پر پلنے والے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حقوق و فرائض کے مابین توازن قائم کرے بصورت دگر ہم اپنی نوجوان نسل کو جس قسم کا تعلیمی ماحول دے رہے ہیں اس سے بڑی ناانصافی اور کوئی نہیں ہو سکتی یونیورسٹی کیمپس کے ایک بہی خواہ نے مادر علمی کی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار کو بٹھا کر ایک ایک کرکے تمام مسائل اور ہر مسئلے کا قواعد و ضوابط اور جامعہ کی روایات کے مطابق حل بھی ان کے سامنے رکھ لیا مگر شومئی قسمت کہ مہینے گزر گئے لیکن کوئی عمل درآمد سامنے نہیں آیا یہاں تک کہ یونیورسٹی کیمپس کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب یعنی بد سے بدتر ہوگئی‘ یہ تمام تروہی لوگ ہیں جو حقوق کیلئے کئی کئی ہفتے بلکہ مہینے کاربندی پر اتر آنے سے ذرا بھر کتراتے نہیں لیکن فرائض کو نہایت بے دردی سے روندا جارہا ہے جب شہر بھر کی گاڑیاں پک اینڈ ڈراپ والی بن کر یونیورسٹی کے پروفیسروں اور افسران کے گھروں کی دہلیز پر اڈے قائم کرلیں اور انتظامیہ اس پر بھی خاموش ہو تو یہی وہ حالت ہوتی ہے جو شرافت ” شر اور آفت“ میں تبدیل ہو جاتی ہے روزوں میں جب مارکیٹ مینجمنٹ کمیٹی غیر متوقع طور پر جاگ اٹھی اور بعض دکانوں اور کینٹینوں پر چھاپے مارے گئے تو پتہ چلا کر یہانپر بھی دکانداری کیلئے یونیورسٹی کیساتھ معاہدے کی شرط کے طور پر قیمت میں قدرے رعایت تو کیا باہر شہر سے بھی زیادہ مہنگی چیزیں فروخت ہو رہی ہیں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے کنونیئر ایک سینئر پروفیسر بلکہ ڈین ہیں لہٰذا اب تو ہونا یہ بھی چاہئے کہ کمیٹی اپنے چھاپوں میں ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کو تو بالکل نظر انداز نہ کریں جہاں پر قائم کینٹین کا نہ صرف ماحول نہایت دیدنی ہے بلکہ نرخ تو کسی فائیو سٹار بادشاہی ریسٹورنٹ کے چل رہے ہیں دراصل یونیورسٹی کیمپس ابتداءہی سے اپنے اندر ایک خود مختار ریاست کی حیثیت کا حامل تھا لیکن رفتہ رفتہ جب غفلت اور بدانتظامی کا دور دورہ ہوا تو سارے قاعدے سے ضابطے روایات اور خصوصیات یکے بعد دیگرے ٹوٹتی رہیں یہاں تک کہ اب سب سے زیادہ بدنظمی اور پھر تیاں اگر کہیں پر ہوں تو وہ یونیورسٹی کیمپس ہے ادھر حکومتی اداروں نے بھی اسے کھلے بندوں چھوڑ دیا ہے جس طرح یونیورسٹیوں کی مالی بدحالی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا بالکل اسی طرح اس کے ماحول کی بربادی سے بھی منہ موڑ لیا ہے۔ اب یہ امر باعث حیرت نہیں تو کیا ہو سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی ایک دو نہیں بلکہ پوری24یونیورسٹیاں وائس چانسلروں کی تقرری کی منتظر ہیں لیکن لگتا کچھ یوں ہے کہ صاحب اقتدار حلقے کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو ویسے بھی تعلیم بالخصوص یونیورسٹیاں مالی بدحالی کے اس دور میں خزانے پر ایک بھاری بوجھ بنتی جارہی ہیں اور پھر خزانہ بھی ایسا کہ ہمیشہ کی طرح عوام کے لئے خالی اور بیرونی سودی قرضے کا منتظر ہو۔