معاشی ترقی اُور امن و امان

وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس گزشتہ روز ہوا ہے، اس اجلاس میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

میڈیا کے مطابق اعلیٰ سطح کے اس جائزہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کو اسمگلنگ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال، منشیات، اشیاء خورونوش بشمول چینی، گندم، کھاد، پٹرولیم مصنوعات، غیرقانونی اسلحے کی اسمگلنگ اور ملک کے اندر فروخت کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا ہے، افغان ٹرنزٹ ٹریڈ کے بارے میں اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی اجلاس میں پیش کی گئی، وزیراعظم اور دیگر شرکاء کو اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قومی انسداد اسمگلنگ اسٹرٹیجی حتمی مراحل میں ہے اور اسے حتمی منظوری کے لیے جلد پیش کیا جائے گا۔

میڈیا کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم کو تیز کرنے، اسمگلنگ میں سہولت کاری میں ملوث نشاندہی شدہ افسران کو عہدے سے فوراً ہٹانے، محکمانہ کارروائی کرنے، تمام متعلقہ اداروں کو ایک دوسرے سے تعاون، اسمگلروں اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو مثالی سزا دلوانے، اس حوالے سے ضروری قانون سازی اور چینی کی مکمل طور پر اسمگلنگ روکنے کی ہدایات دی ہیں، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک و قوم کا پیسہ لوٹنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو قطعاً کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔

پاکستان میں اس قسم کے اعلیٰ سطح کے اجلاس ہر حکومت کے دور میں ہوتے ہیں اور خاصی کثرت سے ہوتے ہیں۔ ایسے اجلاسوں میں جو بریفنگ دی جاتی ہے، ہر وزیراعظم اسمگلنگ اور دیگر غیرقانونی دھندہ روکنے کے لیے اقدامات کا اعلان کرتا ہے، یوں اجلاس ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد سرکار روٹین کے مطابق کام کرتی رہتی ہے۔ اسمگلنگ رکتی ہے نہ اسمگلر اور منشیات اور اسحلہ ڈیلر پکڑے جاتے ہیں۔کوئی قانون سازی نہیں ہوتی، اگر کوئی قانون بنایا بھی جائے تو پہلے سے چلے آرہے قانونی ابہام مزید پیچیدہ اور گنجھلک بن جاتے ہیں۔

بہرحال اگر وزیراعظم میاں شہباز شریف بیوروکریسی اور متعلقہ سیکریٹری صاحب اور متعلقہ وزیر صاحب سے ہفتہ وار رپورٹ طلب کرتے رہیں ، قوانین کے ابہام ختم کرانے کے لیے قانون دانوں پر نظر رکھیں ، تو کامیابی مل سکتی ہے۔

میڈیا کی ایک خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دو تین روز قبل بلوچستان کے شہر مستونگ میں کسٹمزحکام اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے اسمگل شدہ مال کے ایک گودام پر چھاپہ مارا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس گودام سے اسمگلنگ کا جو مال پکڑا گیا ہے، اس کی مالیت10 ارب روپے سے زیادہ ہے۔

میڈیا کے مطابق گزشتہ روز کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ تفصیل بتائی گئی، جس پر وزیرِ اعظم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعریف کرتے ہوئے انسداد اسمگلنگ کی کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے اسمگلنگ میں خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔اسمگلروں، ذخیرہ اندوزوں اور ان کے سہولت کار سرکاری افسران کی فہرست قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبوں کو فراہم کر دی گئی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے نوجوانوں کو متبادل روزگار کے مواقع اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم نے کسٹم حکام کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو مانیٹر کرنے والے سسٹم کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی ہدایت کردی ہے۔

پاکستان کی نومنتخب حکومت معیشت کے حوالے سے مثبت پیش رفت کر رہی ہے۔ گزشتہ روز ترکیہ کے سرمایہ کاروں کے وفد نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی ہے، بتایا گیا ہے کہ ترک وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ادھر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اجلاس کے موقع پر مختلف ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں وزیر خزانہ نے نوید سنائی ہے کہ پاکستان کی معیشت 2047تک تین ٹریلین ڈالرتک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، پاکستان سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کے لیے بینکاری اور سرمایہ کاری کے قابل منصوبے پیش کرے گا، انھوں نے مزید کہا کہ ٹیکسیشن اور پرائمری بیلنس کے معاملات پر صوبوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔

وزیرخزانہ نے عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس رپورٹ میں پاکستان کے لیے 2047 تک ایک اعلیٰ درمیانی آمدنی والا ملک بننے کا ایک واضح روڈ میپ پیش کیا گیا۔ انھوں نے کہاکہ کہ پاکستان کی معیشت 2047 تک 300 بلین ڈالر تین ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بات خوش آیندہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں، ڈیجیٹلائزیشن اور انسانی ترقی کے امورمیں عالمی بینک اورپاکستان کی حکومت کی ترجیحات یکساں ہے۔

انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اسٹینڈ بائی معاہدہ کی وجہ سے پاکستان میں معیشت کومستحکم بنانے میں مددملی ہے ۔وزیرخزانہ نے بتایا کہ پاکستان نے کامیابی سے یورو بانڈ کی بروقت ادائیگی کر دی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بڑے اور توسیعی پروگرام پر بات چیت کاآغازکردیا ہے ۔

وفاقی وزیر خزانہ ایک واضح اور قابل عمل معاشی روڈ میپ لے کر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے لیے بڑی تیزی سے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ پاکستان کے متوازن اور بہتر تعلقات ملکی معیشت کے حوالے سے اچھی پیش رفت کہی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب کے سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے جو فیصلے کیے ہیں، وہ بھی ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں بہتری کا باعث بنیں گے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری پرکشش بنانے کے لیے سرمایہ کاروں کو اچھا منافع کمانے اور اسے بآسانی منتقل کرنے کا آپشن اختیار کرنا ہو گا۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے متعدد شعبے خاصی کشش رکھتے ہیں، ان میں زراعت اور معدنیات قابل ذکر ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تنہا سعودی عرب پاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

میڈیا کے مطابق پاکستان نے سعودی سرمایہ کاروں یقین دہانی کرائی ہے کہ منافعوں کی منتقلی میں ترجیح ملے گی۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی اسٹیٹ بینک کو ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ پاکستان نے ایسی ہی خصوصی مراعات سی پیک منصوبے کے تحت چین کو دی تھیں، جس کانتیجہ 25 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی صورت میں برآمد ہوا۔

پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کار ہی نہیں بلکہ ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ اس وقت محفوظ سمجھیں گے جب ملک میں امن وامان کی صورت حال اچھی ہو گی، بیورو کریسی کے احتساب کا طریقہ کار صاف اور شفاف ہو گا، قوانین اور ضابطوں میں موجود ابہام ختم ہوں گے، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہو گا، بلیک اکانومی کا سائز مارجنلائز کیا جائے گا۔ جب تک یہ اہداف حاصل نہیں ہوتے ملکی معیشت میں غیرمعمولی بہتری کے امکانات نہیں ہوں گے۔

ابھی گزشتہ روز کراچی کے علاقے لانڈھی مانسہرہ کالونی میں جاپانی باشندوں کی گاڑی پر خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، خوش قسمتی سے یہ کوشش ناکام بنا دی گئی ہے اور وین میں سوار پانچوں جاپانی باشندے معجزانہ طور پر محفوظ رہے جنھیں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ، گاڑی میں سوار نجی گارڈز اور کراچی کے علاقے شرافی گوٹھ کی پولیس نے حوصلہ مندی اور حواس برقرار رکھتے ہوئے جوابی فائرنگ کر دی۔ ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو بلاسٹ کر کے ختم کر دیا جب کہ دوسرا دہشت گرد سیکیورٹی گارڈز یا پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا۔

یہ واقعہ جمعہ کی صبح سات بجے کے قریب پیش آیا، اطلاعات کے مطابق ایک ہائی ایس وین جاپانی باشندوں کو لے جا رہی تھی، یہ جاپانی باشندے کراچی میں غیر ملکی ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں کام کرتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ غیرملکی باشندوں کو نقصان نہیں پہنچا ورنہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز کا ٹارگٹ جاپانی باشندے ہی تھے۔ پاکستان کو معاشی اور معاشرتی لحاظ سے پرامن بنانے کے لیے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے قلیل مدتی کے ساتھ ساتھ طویل مدتی حکمت عملی پر کام کرنا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نصاب تعلیم میں عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں۔ وفاق اور صوبوں کے تمام اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز میں ایک ہی تعلیمی نصاب پڑھایا جانا چاہیے۔ نجی تعلیمی اداروں کے لیے بھی یہی نصاب لاگو کیا جانا چاہیے۔ یہ طویل مدتی عمل انتہاپسند نظریات کو بتدریج اعتدال پسندی میں تبدیل کر سکتا ہے۔