سچائی عین ایمان ہے

انسانی رویے دلچسپ اور پراسرار ہوتے ہیں۔ان رویوں کی پُر اسراریت کو جانچنے اور جاننے کی جستجو ہمیشہ سے رہی ہے اور اس ضمن میں نفسیات کے اندر ذیلی شعبوں میں کام بھی کیا جا رہا ہے۔

انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور اسے سوچنے سمجھنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے جس کا استعمال وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے۔انسان کی پہچان اس کے رویوں سے ہوتی ہے اور انسانی رویوں کو سمجھنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔سچ اور جھوٹ ایسی قوتیں ہیں جو انسانی کردار کا خاصا ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو یا معاشرہ وہاں سچ کو پسندیدہ جبکہ جھوٹ کو قابل نفرت جانا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سچ بولنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جھوٹ کی کثرت معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور اس کی زد میں سادہ اور معصوم لوگوں کی اکثرت ہی آتی ہے۔

جھوٹ بولنے والے اس مہارت سے سامنے والے کو شیشے میںا تارتے ہیں کہ وہ شک بھی نہیں کر پاتا۔ معاشرے میں ایسے دھوکے باز جھوٹے لوگ آپ کو اپنے اردگرد کثرت سے دکھائی دیتے ہیں اور اگر ان کا جھوٹ پکڑا جائے تو وہ مہارت سے اسے بھی کسی دوسرے پر ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔جھوٹ انسانی رویوں میں ایک پیجیدہ مگر عام رویہ ہے اور اس کو پہچاننا مشکل ہے۔اس حوالے سے سائنسی تحقیق کادائرہ فی الحال محدود ہے کہ لوگ کیسے جھوٹ بولتے ہیں لیکن اسی ضمن سن 2004ء میں ایک مشہور ویب سائٹ نے پول کروایا جس کے نتائج میں 96 فیصد لوگوں نے قبول کیا کہ وہ کبھی کبھار جھوٹ بولتے ہیں۔

سن 2009ء میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں ایک ہزار امریکی افراد میں سے 60فیصد نے یہ دعوی کیا کہ وہ بلکل جھوٹ نہیں بولتے۔لیکن محققین نے اس کے نتیجے میں یہ دیکھا کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں لیکن اس کو تسلیم نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ وقتاً فوقتاً جھوٹ بولتے ہیں کچھ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اور کچھ دھوکا دینے کے لئے۔ اب جھوٹے کو پکڑ نا ایک ایسی مشکل چیز ہے جو جوئے شیر لانے کے برابر ہے لیکن پھر بھی کچھ ایسی علامات ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر چونکنا ہوجانا بہتر ہے۔

 مبہم ہوں تفصیلات پیش کرنے کو کہیں۔

سوال کو دہرائیں

 جملوںکو ٹکڑوں میں بولیں

 جب کسی کہانی کو بدلا جائے تو اس میں تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام رہنا

 اگر سامنے والا بالوں میں ہاتھ پھیرے یا انگلیوں سے ہونٹوں کو دبائے۔

اگر آپ کو شک ہو کہ کوئی جھوٹ بول رہا ہے تواس کی نشاندہی کرنے کے لئے آپ ان چند اشاروں پر عمل کریں جو جھوٹے افراد کی نشاندہی میں معاون ہوتے ہیں۔

ظاہری رویہ

جب بھی جھوٹ پکڑنے کی کو شش کی جاتی ہے اس میں لوگوں کی حرکات و سکنات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔کیونکہ رویے پہچان کرواتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی جھوٹ بول رہا ہے تو وہ کانپے گا، تاثرات کو چھپانے کی کوشش کرے گا، یا خفت چھپانے کے لئے انگلیاں چٹخائے گا ، بالوں سے کھیلے گا، ہونٹوںیا ماتھے پہ انگلیوں سے دباؤڈال کر مسلنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ساری نشانیاں اس کی اندرونی کشمکش کی ہیں جو وہ اپنے جھوٹ کو چھپانے کی تگ و دومیں کرے گا۔

گو کہ یہ نشانیاں کسی جھوٹے شخص کی اندونی خلفشار کی عکاسی کرتی ہیں لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات جو سن 1970سے آنکھوں کی حرکت پر تحقیق کر رہے تھے ان کے مطابق جھوٹ کا آنکھوں کی حرکت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ان کے مطابق آنکھوں کی جنبش اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کوئی شخص اپنی یاداشت کو کھنگھالنے کی تگ و دو میں ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی تحقیقی مقالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گو آنکھوں کی حرکت اور ایسے کچھ اشارے جھوٹ بولنے والوںکی شناخت میں معاون ہوسکتے ہیں لیکن یہ انتہائی کمزور نشانیوں میں سے ایک ہو سکتے ہیں۔یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ گو ظاہری اسباب معاون ہوسکتے ہیںلیکن تمام اشاروں اور صورت حال کو سمجھنا ضروری ہے۔

آواز اور گفتگو

بے یقینی اوربولنے میں دشواری احساس جرم کی عکاسی کرسکتی ہے اگر سامنے والے کو خود اپنی باتوں پر یقین نہ ہو اور وہ بلا وجہ کی حساسیت کا مظاہرہ کرے تو اس کا مطلب ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

ہماری گفتگو ہمارے کردار کی عکاسی کرتی ہے ۔ہم جو کرتے ہیں اس کا اظہار اپنی گفتگو کے ذریعے سے کرتے ہیں۔محقیقین نے اس ضمن میں ایک طریقہ یہ بتایا ہے کہ جھوٹ کو پکڑنے کے لئے تاریخی ترتیب کے بجائے اس کو الٹا کر کے دیکھا جائے یعنی اس سے پہلے کیا ہوا اس سے پہلے کیسے ہوا؟ اس طرح کے اضافی چیلنج سے دیگر زبانی اور غیر زبانی اشاروں کی شناخت آسانی سے ہوسکتی ہے۔

جھوٹے لوگوں کو اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے زیادہ ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنے طرزعمل کو قابو میں رکھنے اور اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے تگ و دو میں رہتے ہیں۔جھوٹ ذہنی طور پر نقصان دہ ہوتا ہے اور اس سے سنگین ذہنی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں رویے سے ظاہر ہونے والی تبدیلیاں واضح ہوتی ہیں۔اس ضمن میں اسیّ لوگوں پر ایک واقعے کو لے کر ایک تحقیق کی گئی ان میں سے آدھے لوگوں کو الٹ ترتیب میں کہانی کی تفصیلات بتانے کا کہا گیا جبکہ آدھے لوگوں کو زمانی اعتبار سے اور محقیقین اس نتیجے پر پہنچے کے ریوس آرڈر کے ذریعے جھوٹ کو پکڑنے کے زیادہ امکانات موجود ہوتے ہیں ۔

کیونکہ جب زمانی اعتبار سے یعنی ترتیب وار کوئی کہانی گھڑی جاتی ہے تو اس میں جھوٹ بولنے والے کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے حوالوں کو جوڑ سکتا ہے۔ لیکن جب یہ الٹی ترتیب میں ہو تو اس کے پاس جھوٹ گھٹرنے کے کم سے کم امکانات ہوتے ہیں۔ایک اور تجربے میں پولیس افسران نے ٹیپ کئے گئے انٹرویوز کو جانچا کے ان میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ زمانی اعتبار کے بجائے ریورس آرڈر انٹرویوز میں جھوٹ کو پکڑنا آسان تھا۔

چھٹی حس

کبھی کبھی اپنے اوپر بھروسہ کر کے اپنے اندر کی آواز کو سنتے ہوئے بھی اس کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کوئی جھوٹ بول رہا ہے یا نہیں۔ہمیں دیگر حسیات کے ساتھ ساتھ قدرت نے ایک چھٹی حس بھی دے رکھی ہے اور یہ بعض ایسے مواقع پر ہمیں معاونت دیتی ہے جہاں ہم عقل و شعور کے سارے گھوڑے دوڑا چکے ہوتے ہیں اور پھر بھی ایک آواز آپ کو اندر سے آرہی ہوتی ہے جو بلکل ایک سگنل کی مانند ہوتی ہے۔ بظاہر سب ٹھیک ہونے کے باوجود بھی آپ کو لگتا ہے کچھ تو گڑبڑ ہے اور یہی وہ مدد ہے جو قدرت کرتی ہے اور یہ ہماری چھٹی حس کی صورت میں ہوتا ہے۔ لاشعوری طور پر بھی بعض اوقات آپ کے ذہن میں کسی کے لئے دھوکہ باز اور بے ایمان جیسے الفاظ ابھرتے ہیں۔اور یہ ہمارے جبلت میں شامل ہوتا ہے۔

جھوٹ کو پکڑنا مشکل کیوں ہوتاہے؟

اکثر اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ وہ ظاہری اشارے کونسے ہیں جن سے جھوٹ کو پکڑا جاسکے لیکن جبلت پر بھروسہ کرنا اس میں بہترین ہے ۔ لوگ جھوٹ کو پکڑنے سے جڑے دقیانوسی تصورات جیسے آنکھوں سے آنکھ نہ ملانا ، چڑچڑا پن اور دیگر پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک درست ہے مگر اہم چیز کسی کے قول کے بجائے اس کے عمل کو پرکھنا ہے۔ کہنے کو تو کوئی آسمان سے چاند تارے توڑ لانے کا دعوے دار بھی ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں وقت آنے پر کسی شخص کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ اپنے قول و فعل میں کس قدر سچا اور کھرا ہے یا تضاد کا شکار ہے۔

عموماً جھوٹے افراد سے ایک دو ملاقات میں آپ کے اندر لگا قدرت کا میٹر آپ کو سرخ سگنل دینے لگتاہے اب بعض اوقات ہمیں اس کو رد کر دیتے ہیں اور پھر سے انہی لوگوں پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرنے لگتے ہیں تو اس میںقصور ہمارا اپنا ہی ہوتاہے۔ دنیاوی اور دینوی دونوں اعتبار سے جھوٹ کو ناپسند کیا گیا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی نے اگر دھوکہ دیا ہے تو اس پردوبارہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ جس کی فطرت میں دھوکہ ہے وہ ہر بار آپ کو دھوکہ ہی دے گا۔جھوٹے شخص پر دوبارہ اعتبار کرنے سے بڑی کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔سو اگر آپ کا واسطہ کسی ایسے شخص سے پڑتا ہے جو آپ سے تو سچ بولنے کا دعویٰ کر رہا ہے مگر کسی دوسرے سے بیک وقت جھوٹ بول رہا ہے تو یاد رکھیں وہ آپ سے بھی موقع ملنے پر جھوٹ ہی بولے گا۔سو ایسے شخص سے لین دین کے معاملات کو ترک کردیںا ور ان سے مختصر بات کریں۔ اور سب سے اہم تربیت کا عنصر ہے اپنے بچوںکو سچ بولنے کی ترغیب ہی نہ دیں بلکہ ان سے سچ بولیں اور ان کے سامنے سچائی کو رکھیں۔ کیونکہ سچائی عین ایمان ہے۔