ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت کون ادا کر رہا ہے؟

  ترقی یافتہ ممالک نے کلائمیٹ فنانسنگ کے تحت ترقی پذیر ممالک کی مدد کا عہد تو کیا ہے لیکن وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں‘کوئلے اور تیل جیسے فوسل فیولز کا صنعتی انقلاب اور کئی ممالک کی معاشی ترقی میں ایک اہم کردار رہا ہے لیکن ان کو بطور ایندھن جلانے سے ضرر رساں گیسوں کا اخراج بھی ہوتا اور ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔اگر تاریخ دیکھیں تو انسانی فعل سے پیدا ہوانے والے ماحولیاتی بحران میں سب سے بڑا حصہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا رہا ہے۔ یہ ممالک اقتصادی ترقی کے لئے ایک طویل عرصے سے فوسل فیولز جلاتے آ رہے ہیں۔اس لئے ترقی پذیر ممالک کے کئی سربراہان، تجزیہ کار اور ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ ایسے ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج کی زیادہ بڑی قیمت ادا کرنی اور زیادہ ذمے داری لینی چاہیے۔اس حوالے سے ایک اصطلاح جو عموماً استعمال کی جاتی ہے وہ ”کلائمیٹ فنانس“ہے، جس سے مراد ترقی پذیر ممالک کو فوسل فیولز کے استعمال کے بغیر اقتصادی طور پر فعال رہنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس سے یہ مراد بھی ہے کہ امیر ممالک عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے غریب ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی کی مطابقت سے ضروری تبدیلیاں لانے میں مدد کریں۔کلائمیٹ فنانسنگ کو عام طور سے 2009ء میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سربراہی اجلاس کے دوران صنعتی ممالک کی جانب سے کئے گئے اس عہد سے منسلک کیا جاتا ہے کہ وہ ماحول کے حوالے سے 2020ء تک ہر سال 100 بلین ڈالر جمع کرتے رہیں گے۔ لیکن یہ مدت پوری ہونے سے قبل ہی 2015ء  میں اس عہد سے منسلک ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا وہ اس پر 2025 ء تک قائم رہیں گے۔ ترقی پذیر ممالک کے کئی سربراہان، تجزیہ کار اور ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ ایسے ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج کی زیادہ بڑی قیمت ادا کرنی اور زیادہ ذمے داری لینی چاہیے۔اس کا تقریباً نصف حصہ ڈونر ممالک کی جانب سے وصول کنندہ ممالک کو براہ راست ترقی کے لئے امداد کے طور پر دیا جاتا ہے اور بقایا رقوم متعدد ممالک کی جانب سے کسی فنڈ یا پروگرام کے تحت ایک سے زیادہ ممالک کو دی جاتی ہیں۔اس فنڈ کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی کی رفتار میں کمی اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے نتائج کی مطابقت سے تبدیلیاں لانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اب تک ڈونر ممالک نے اس فنڈ میں تقریباً 20 ارب ڈالر جمع کرنے کا عہد کیا ہے، جس میں سے 12.8 ارب ڈالر کی مختلف منصوبوں کیلئے منظوری دے دی گئی ہے اور 3.6 ارب ڈالر مختلف پروگراموں پر خرچ کئے جا چکے ہیں۔اس فنڈ کے ذریعے فنانس ہونے والے منصوبوں میں سے اکثر افریقہ اور ایشیا میں ہیں اور کچھ لاطینی امریکہ، کریبین اور مشرقی یورپ میں بھی ہیں۔اسی طرح کا ایک اور ”فنڈیپٹیشن فنڈ“ہے۔ اس فنڈ میں ڈونر ممالک اپنی مرضی سے کسی بھی وقت رقوم جمع کر سکتے ہیں جی سیون ممالک اور 70 ایسے ممالک جن کو ماحولیاتی تبدیلی سے خطرہ ہے نے”گلوبل شیلڈ اگینسٹ کالئمیٹ رسکس“نامی ایک پروگرام بھی تشکیل دیا ہے۔ اس کے تحت کسی ماحولیاتی تباہی کی صورت میں متعلقہ ممالک کو فوری طور پر فنڈز کی فراہمی کی جا سکے گی۔ اس فنڈ میں اب تک 210 ملین یورو جمع کئے جا چکے ہیں۔ان تمام اقدامات کے باوجود ترقی پذیر ممالک  2009 ء میں 100 بلین کی کلائمیٹ فنانسنگ کے حوالے سے کیا گیا عہد پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔