پاک سعودی تعلقات اُور تجارت

حج مبارک آپریشن کا آغاز جمعرات سے کیا جاچکا ہے، اس سلسلے میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، چند عشرے قبل تک ہوائی جہاز کے علاوہ بحری جہاز کے ذریعے بھی سستا ترین پیکیج کے تحت عازمین حج روانہ ہوا کرتے تھے۔

سقوط ڈھاکا سے قبل کراچی اور چٹاگانگ سے بھی لوگ حج کے لیے بحری جہاز سے روانہ ہوا کرتے تھے۔ بعد میں مغربی پاکستان میں یہ سلسلہ ختم کردیا گیا، جب کہ بنگلہ دیش سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ ایک بہت بڑا بحری جہاز ہزاروں حاجیوں کو لے کر چٹاگانگ کی بندرگاہ سے روانہ ہوگا، یہ ایک کثیر منزلہ جہاز ہے جس میں ایک بہت بڑا آڈیٹوریم موجود ہے جس میں دو ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔ یقینی طور پر دوران سفر ہی عازمین کو حج مبارک کے سلسلے میں ہر طرح کی ٹریننگ دی جاسکے گی۔

پاکستان میں ہر سال اخراجات میں اس قدر اضافہ کردیا جاتا ہے کہ سالہا سال سے رقم جمع کر کے تیاری کرنے والے اخراجات کا سن کر ہی دل پکڑکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جوکہ تھوڑی تھوڑی رقم کئی سالوں تک جوڑتے رہتے ہیں اور رقم جوڑنے کا سلسلہ شروع سے ایسے ہی چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب 1960 کے عشرے میں حج 5 ہزار روپے میں ادا ہو جاتا تھا جب بھی غریب ایک ایک پائی جمع کرتا رہتا تھا۔

ستر کے عشرے کے ابتدائی سالوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ حج 12 ہزار روپے کا ہوگیا اور جب بات لاکھوں تک پہنچی جب بھی غریب کسی نہ کسی طرح رقم جمع کر لیتا تھا، لیکن اب تو 13 لاکھ اور اس سے بھی زیادہ رقوم خرچ کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے تو عازمین حج کی مشکلات میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ بہت سے افراد زائد رقوم لے کر جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں انھوں نے جدہ اور دیگر شہروں سے خوب خریداری بھی کرنا ہوتی ہے جن میں زیورات بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب کے مختلف شہروں میں واقع مارکیٹوں میں زیادہ تر ایشیائی اور دیگر ممالک کی اشیا ہوتی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی مصنوعات بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیکسٹائل کی دنیا میں ہمارا بڑا نام ہے لیکن پاکستان کے حکام یہاں کے تاجر صنعتکاروں نے اس سلسلے میں زیادہ کام نہیں کیا جس کے باعث پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک کی مصنوعات کی بھرمار ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کی تجارت کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم ہے، قیام پاکستان کے بعد بحری اور ہوائی جہاز کے ذریعے تجارت ہو رہی ہے لیکن پاکستان کی طرف سے جو اشیا ایکسپورٹ کی جاتی ہیں ان کی مالیت اور شیئر بھی بہت ہی کم ہیں۔

2023 میں پاکستان نے سعودی عرب کو 56 کروڑ32 لاکھ ڈالر کی اشیا برآمد کیں جس کا حصہ کل ایکسپورٹ کا محض 2.03 فیصد بنتا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات کا حصہ دگنے سے زائد یعنی 5.02 فیصد۔ جب کہ سعودی عرب سے ہماری درآمدی مالیت 4 ارب 30 کروڑ 26 لاکھ 90 ہزار ڈالر بنتی ہے اور اس طرح کل درآمدی مالیت میں سعودی عرب کا حصہ7.79 فیصد ہے۔

اب ہمارے تاجروں، ایکسپورٹرز اور معاشی حکام کو اس طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہوگی کہ کس طرح باہمی تجارت اور خاص طور پر پاکستانی ایکسپورٹ برائے سعودی عرب کے لیے اضافہ کیا جائے، سرمایہ کاری کے ساتھ اس جانب بھی توجہ دیں۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا، سعودی کاروباری وفد کے اس دورے کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ یقینی طور پر برادر اسلامی ملک کے کاروباری وفد کا یہ دورہ پاکستان کے لیے قابل فخر ہے جب کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اسی ماہ دورہ کرنے کی امید کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سعودی سرمایہ کاری سے آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی امیدیں روشن ہوگئی ہیں۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکا اور دیگر دوست ممالک آئی ایم ایف پروگرام دلوانے میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔

میرے خیال میں آئی ایم ایف مذاکرات سے قبل سعودی سرمایہ کاری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے نیز دنیا کو یہ بھی باور کرایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم ملک ہے، اگر مذاکرات سے قبل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان مکمل ہو جاتا ہے تو آئی ایم ایف کو انتہائی مثبت پیغام وصول ہوگا۔

یہاں اصل بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط اور دیگر بہت سی ناگوار باتوں نیز تاخیری حربوں اور شدید عدم اطمینان کا اظہار اور دیگر کئی معاملات پاکستانی معیشت پر بم کی طرح گرتے ہیں۔ منفی اثرات روپے پر اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ روپے کی قدر گر جاتی ہے۔ دیگر کئی عالمی ادارے ہیں ان سے قرض لینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ عوام پر بے دھڑک بجلی، گیس بم گرائے جاتے ہیں۔

سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا نتیجہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو دیگر عرب ممالک یو اے ای اور کویت کے ساتھ اقتصادی معاملات پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں ملکوں خاص طور پر کویت کے لیے پاکستانیوں کے ویزا سے متعلق نرمی لانے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں کسی بھی حکومت کی طرف سے باقاعدہ تیاری کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے گئے۔ اس کے ساتھ پاکستان کو بجٹ معاملات طے کرنے میں بھی آسانی ہوگی، کیونکہ بجٹ سازی کے سلسلے میں آئی ایم ایف کی جانب سے بہت سی پابندیوں کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارا ملک ہمارا بجٹ ہماری مرضی۔ لیکن پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے اس بات پر محنت کرکے ہم نے معاملہ ہی الٹ کر دیا ہے ۔

اب معاشی آزادی مختلف اقسام کی شرائط اور پابندیوں کے ساتھ موجود ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہماری کمزور معاشی پالیسیوں اور بے تحاشا اخراجات، کرپشن اور دیگر باتوں کے باعث معیشت بے انتہا مسائل سے دوچار ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر ضروری اور فضول اخراجات سے جلد چھٹکارا حاصل کر لے گی۔ حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

مئی 2022سے اس بات کا زبردست چرچا کیا جاتا رہا کہ ہر قسم کے غیر ضروری اخراجات سے ملک کو پاک کیا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت ایک طبقہ جوکہ خود کو اشرافیہ کہلاتا اور بہت سے ذمے دار عہدوں پر فائز ہیں، اگر ان سب کو فراہم کی جانے والی مراعات کو ہی نصف کردیں تو ہم اپنے اخراجات کا نصف بچا لیں گے تو ایسی صورت میں بجٹ پر جو کوئی بھی غیر ضروری بوجھ پڑے گا اس سے نجات مل جائے گی۔